دنیا بھر سے دور یہ نگری
دنیا بھر سے دور یہ نگری
نگری دنیا بھر سے نرالی
اندر ارمانوں کا میلا
باہر سے دیکھو تو خالی
ہم ہیں اس کٹیا کے جوگی
ہم ہیں اس نگری کے والی
ہم نے تو رکھا ہے زمانہ
تم آنا تو تنہا آنا
دل کی کٹیا دشت کنارے
بستی کا سا حال نہیں ہے
مکھیا،پیر،پروہت،پیادے
ان سب کا جنجال نہیں ہے
نہ بنیے،نہ سیٹھ نہ ٹھاکر
پینتھ نہیں ،چوپال نہیں
سونا،روپیہ۔ چوکی ،مسند
یہ بھی مال منال نہیں ہے
لیکن یہ جوگی دل والا
اے گوری کنگال نہیں ہے
چاہو جو چاہت کا خزانہ
تم آنا اور تنہا آنا
آہو مانگے بَن کا رمنہ
بھنورہ چاہے پھول کی ڈالی
سوکھے خیل کے کونپل مانگے
اک گھنگور بدریا کالی
دھوپ جلے کہیں سایہ چاہیں
اندھی راتیں دیپ دوالی
ہم کیا مانگیں ہم کیا چاہیں؟
ہونٹ سلے اور جھولی خالی
دل بھنورہ نہ پھول نہ کونپل
بگیا نہ بگیا کا مالی
دل آہو نہ دھوپ نہ سایہ
دل کی اپنی بات نرالی
دل تو کسی درشن کا بھوکا
دل تو کسی درشن کا سوالی
نام لیے بن پڑا پکارے
کسے پکارے دشت کنارے؟
یہ تو اک دنیا کو چاہیں
ان کو کس نے اپنا جانا
اور تو سب لوگوں کا ٹھکانہ
انشاء جی کا کون ٹھکانہ
اب بھٹکیں تو آپ ہی بھٹکیں
چھوڑا دنیا کو بھٹکانہ
گیت کتاب اور نظمیں غزلیں
یہ سب ان کا مال پرانا
جھوٹی باتیں سچی باتیں
بیتی باتیں کیا دہرانا
اب تو گوری نئے سرے سے
اندھیاروں میں دیپ جلانا
مجبوری؟ کیسی مجبوری
آنا ہو تو لاکھ بہانا
آنا اس کٹیا کے دوارے
دل کی کٹیا دشت کنارے
ابنِ انشاء
No comments:
Post a Comment