Saturday, November 20, 2010

دنیا بھر سے دور یہ نگری


دنیا بھر سے دور یہ نگری
دنیا بھر سے دور یہ نگری
نگری دنیا بھر سے نرالی
اندر ارمانوں کا میلا
باہر سے دیکھو تو خالی
ہم ہیں اس کٹیا کے جوگی
ہم ہیں اس نگری کے والی
ہم نے تو رکھا ہے زمانہ
تم آنا تو تنہا آنا

دل کی کٹیا دشت کنارے
بستی کا سا حال نہیں ہے
مکھیا،پیر،پروہت،پیادے
ان سب کا جنجال نہیں ہے
نہ بنیے،نہ سیٹھ نہ ٹھاکر
پینتھ نہیں ،چوپال نہیں
سونا،روپیہ۔ چوکی ،مسند
یہ بھی مال منال نہیں ہے
لیکن یہ جوگی دل والا
اے گوری کنگال نہیں ہے
چاہو جو چاہت کا خزانہ
تم آنا اور تنہا آنا
آہو مانگے بَن کا رمنہ
بھنورہ چاہے پھول کی ڈالی
سوکھے خیل کے کونپل مانگے
اک گھنگور بدریا کالی
دھوپ جلے کہیں سایہ چاہیں
اندھی راتیں دیپ دوالی
ہم کیا مانگیں ہم کیا چاہیں؟
ہونٹ سلے اور جھولی خالی
دل بھنورہ نہ پھول نہ کونپل
بگیا نہ بگیا کا مالی
دل آہو نہ دھوپ نہ سایہ
دل کی اپنی بات نرالی
دل تو کسی درشن کا بھوکا
دل تو کسی درشن کا سوالی
نام لیے بن پڑا پکارے
کسے پکارے دشت کنارے؟

یہ تو اک دنیا کو چاہیں
ان کو کس نے اپنا جانا
اور تو سب لوگوں کا ٹھکانہ
انشاء جی کا کون ٹھکانہ
اب بھٹکیں تو آپ ہی بھٹکیں
چھوڑا دنیا کو بھٹکانہ
گیت کتاب اور نظمیں غزلیں
یہ سب ان کا مال پرانا
جھوٹی باتیں سچی باتیں
بیتی باتیں کیا دہرانا
اب تو گوری نئے سرے سے
اندھیاروں میں دیپ جلانا
مجبوری؟ کیسی مجبوری
آنا ہو تو لاکھ بہانا

آنا اس کٹیا کے دوارے
دل کی کٹیا دشت کنارے

ابنِ انشاء

No comments:

Post a Comment