Saturday, September 25, 2010

بادشاہ



ایک بار مینڈکوں نے خدا سے دُعا کی کہ یا پروردگار ہمارے لئے کوئی بادشاہ بیھج۔ باقی سب مخلوقات کے بادشاہ ہیں۔ ہمارا کوئی بھی نہیں ہے۔ خداوند نے اُن کی سادہ لوحی پر نظر رتے ہوئے لکڑی کا ایک کندہ جوہڑ میں پھینکا۔ بڑے زوروں کے چھینٹے اُڑے۔ پہلے تو سب ڈر گئے۔ تھوڑی دیر بعد یہ دیکھ کر کہ وہ لمبا لمبا پڑا ہے ڈرتے ڈرتے قریب آئے پھر اس پر چڑھ گئے اور ٹاپنے لگے۔ چند دن بعد دوبارہ خداوند کو عرضی دی کہ یہ بادشاہ ہمیں پسند نہیں آیا۔ کوئی اور بھیج جو ہمارے شایانِ شان ہو۔ خداوند نے ناراض ہو کر ایک سمندری سانپ بھیج دیا۔ وہ آتے ہی بہتوں کو چٹ کر گیا۔ باقی کونوں کُھدروں میں جا چھپے۔

Thursday, September 23, 2010

ابنِ انشا – جوگ بجوگ کی باتیں جُھوٹی، سب جی کا بہلانا ہو


جوگ بجوگ کی باتیں جُھوٹی، سب جی کا بہلانا ہو
پھر بھی ہم سے جاتے جاتے ایک غزل سن جانا ہو

ساری دنیا عقل کی بیَری، کون یہاں پر سیانا ہو
ناحق نام دھریں سب ہم کو، دیوانا دیوانا ہو

نگری نگری لاکھوں دوارے، ہر دوارے پر لاکھ سخی
لیکن جب ہم بھول چکے ہیں، دامن کا پھیلانا ہو

سات سمندر پار کی گوری، کھیل ذرا کرتار کے دیکھ
ہم کو تو اس شہر میں ملنا، اُس کو تھا ملوانا ہو

تیرے یہ کیا جی میں آئی، کھینچ لیے شرما کے ہونٹ
ہم کو زہر پلانے والی، امرت بھی پلوانا ہو

ساون بیتا، بھادوں بیتا، اجڑے اجڑے من کے کھیت
کوئل اب تو کوک اٹھانا، میگھا مینہہ برسانا ہو

ایک ہی صورت، ایک ہی چہرہ، بستی، پربت، جنگل، پینٹھ
اور کسی کے اب کیا ہونگے، چھوڑ ہمیں بھٹکانا ہو

ہم بھی جُھوٹے، تم بھی جُھوٹے، ایک اسی کا سچّا نام
جس سے دیپک جلنا سیکھا، پروانا جل جانا ہو

سیدھے من کو آن دبوچیں، میٹھی باتیں، سُندَر بول
میر، نظیر، کیبر اور انشا، سارا ایک گھرانا ہو
---ابنِ انشا---

Friday, September 17, 2010

دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دشتِ طلب کی دھول میاں


دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دشتِ طلب کی دھول میاں
ہم سے عجب ترا درد کا ناتا، دیکھ ہمیں مت بھول میاں

اہلِ وفا سے بات نہ کرنا، ہوگا ترا اصول میاں
ہم کیوں چھوڑیں ان گلیوں کے پھیروں کا معمول میاں

یونہی تو نہیں دشت میں پہنچے، یونہی تو نہیں جوگ لیا
بستی بستی کانٹے دیکھے، جنگل جنگل پھول میاں

یہ تو کہو کبھی عشق کیا ہے ؟ جگ میں ہوئے ہو رُسوا بھی؟
اس کے سِوا ہم کُچھ بھی نہ پوچھیں، باقی بات فضول میاں

نصب کریں محرابِ تمنّا، دیدہ و دل کو فرش کریں
سُنتے ہیں وہ کُوئے وفا میں آج کریں گے نزول میاں

سُن تو لیا کسی نار کی خاطر کاٹا کوہ، نکالی نہر
ایک ذرا سے قصے کو اب دیتے ہو کیوں طُول میاں

کھیلنے دیں انہیں عشق کی بازی، کھیلیں گے تو سیکھیں گے
قیس کی یا فرہاد کی خاطر کھولیں کیا اسکول میاں

اب تو ہمیں منظور ہے یہ بھی، شہر سے نکلیں، رُسوا ہوں
تجھ کو دیکھا، باتیں کرلیں، محنت ہوئی وصول میاں

انشاء جی کیا عذر ہے تم کو، نقدِ دل و جاں نذر کرو
روپ نگر کے ناکے پر یہ لگتا ہے محصول میاں

--ابنِ انشاء--