Friday, October 29, 2010

تاریخ – ابن انشاء

شاہ جہاں جہانگیر کا بیٹا اور اکبر کا پوتا تھا کسی عمارتی ٹھیکیدار کا نور نظر نہ تھا نہ کسی پی ڈبلیو ڈی والے کا مورث اعلی تھا جیسا کہ لوگ اسے اتنی ساری عمارتیں بنانے کی وجہ سے سمجھ لیتے ہیں ۔


تاج محل اس کی بنائی ہوئی عمارتوں میں سب سے پہلے زیادہ مشہور ہے اس کی تعمیر میں بھی اتنے ہی برس لگے جتنے قائد اعظم محمد علی جناح کے مقبرے کو لگے تھے، اگر کوئی فرق ان دونوں مقبروں کی خوبصورتی اور تعمیر میں ہے تو اس کی وجہ ظاہر ہے شاہجہاں کے زمانے تک تعمیر اور نقشہ سازی میں اتنی ترقیاں نہ ہوئی تھی پتھر وغیرہ ڈھونے گھسنے چمکانے وغیرہ کے طریقے بھی پرانے اور دیر طلب تھے مشینی گاڑیاں اور بجلی کی سریع الرفتار مشینیں بھی ایجاد نہ ہوئی تھیں۔


ایک بات یہ بھی ہے کہ قائد اعظم کروڑوں آدمیوں کے محبوب تھے جبکہ ممتاز محل صرف ایک شخص کی محبوبہ بایں ہمہ اس زمانے کے اعتبار سے ہم تاج محل کو بہت اچھی عمارت کہہ سکتے ہیں ۔


شاہ جہاں بہت دور کی نظر رکھتا تھا تاج محل نہ ہوتا تو آج بھارت کی ٹورسٹ انڈسٹری کو اتنی ترقی نہ ہوتی، اتنا زرمبادلہ نہ حاصل ہوتا اس کے دیگر نتائج بھی دور رس ہیں تاج محل نہ ہوتا تو تاج محل بیٹری بھی نہ ہوتی تاج محل چپل بھی نہ ہوتی تاج محل مکھن نہ ہوتا جو صحت بخش اجزا کا مرکب ہے اور جسے تیاری کے دوران میں ہاتھوں سے نہیں چھوا جاتا، حتٰی کہ کپڑے دھونے کی خاطر تاج محل صابن بھی نہ ہوتا یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ تاج محل نہ ہوتا تو لوگ کیلینڈروں پر تصویریں کس چیز کی چھاپتے ۔


شاہجہاں نے کئی مسجدیں بھی بنائیں موتی مسجد اور دلی کی جامع مسجد وغیرہ لال قلعہ بھی بنایا۔ بہادر شاہ ظفر اسی میں مشاعرہ وغیرہ کرایا کرتے تھے تخت طاؤس بھی شاہجہاں ہی نے بنایا تھا اس میں اپنی طرف سے ہیرے جواہر وغیرہ جڑے تھے لیکن اس کے جانشینوں کو پسند نہیں آیا محمد شاہ نے اسے اٹھا کر نادر شاہ کو دے دیا وہ ایران لے گیا اور اس کا کھوپرا کھا لیا ۔


شاہجہاں کا زمانہ امن کا زمانہ تھا پھر بھی اس نے چند فتوحات کر ہی ڈالیں تاریخوں والے لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں چوری چکاری بھی نہیں ہوتی تھی رشوت خوری بھی نہ تھی خدا جانے اس زمانے کے اہلکار کیا کھاتے ہوں گے ۔


جہانگیر کا مقبرہ بھی شاہجہاں نے بنایا تھا یہ قیاس کرنا غلط ہے کہ شیر افگن نے بنوایا ہو گا ۔


اردو کی آخری کتاب - ابن انشاء

Friday, October 15, 2010

اِک بار کہو تم میری ہو



ہم گھوم چکے بستی بَن میں
اِک آس کی پھانس لیے من میں
کوئی ساجن ہو، کوئی پیارا ہو
کوئی دِیپک ہو، کوئی تارا ہو
جب جیون رات اندھیری ہو
اِک بار کہو تم میری ہو

جب ساون بادل چھائے ہوں
جب پھاگن پھول کھلائے ہوں
جب چندا رُوپ لٹاتا ہو
جو سورج دُھوپ نہاتا ہو
یا شام نے بستی گھیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو

ہاں دل کا دامن پھیلا ہے
کیوں گوری کا دل میلاہے
ہم کب تک پِیت کے دھوکے میں
تم کب تک دُور جھروکے میں
کب دید سے دل کو سیری ہو
اِک بار کہو تم میری ہو

کیا جھگڑا سُود خسارے کا
یہ کاج نہیں بخارے کا
سَب سونا رُوپا لے جائے
سب دنیا دنیا لے جائے
تم ایک مجھے بہتیری ہو
اِک بار کہو تم میری ہو

(ابنِ انشا)

Saturday, October 9, 2010

جوگن کا بھیس




جوگن کا بنا کر بھيس پِھرے
بِرہن ہے کوئی چوديس پھرے

سينے ميں ليے سينے کی دُکھن، آتی ہے پوَن جاتی ہے پوَن
پھولوں نے کانٹوں نے کہا
کچھ دير ٹھہر دامن نہ چُھڑا
پر اس کا چلن وحشی کا چلن، آتی ہے پوَن جاتی ہے پوَن

اُس کو تو کہيں مسکن نہ مکاں
آوارہ بہ دل آوارہ بہ جاں
لوگوں کے ہيں گھر لوگوں کے وطن، آتی ہے پوَن جاتی ہے پوَن

يہاں کون پوَن کی نگاہ ميں ہے؟
وہ جو راہ ميں ہے، بس راہ ميں ہے
پربت کہ نگر، صحرا کہ چمن، آتی ہے پوَن جاتی ہے پوَن

رُکنے کی نہيں جا، اٹھ بھی چُکو
انشا جی چلو، ہاں تم بھی چلو
اور ساتھ چلے دُکھتا ہوا من، آتی ہے پوَن جاتی ہے پوَن

ابنِ انشاء