Saturday, November 20, 2010

اک بار کہو تم میری ہو


اک بار کہو تم میری ہو
ہم گھوم چکے بستی بَن میں
اک آس کی پھانس لئے مَن میں
کوئی ساجن ہو، کوئی پیارا ہو
کوئی دیپک ہو، کوئی تارا ہو
جب جیون رات اندھیری ہو

اک بار کہو تم میری ہو

جب ساون بادل چھائے ہوں
جب پھاگن پھول کھلائے ہوں
جب چندا روپ لُٹاتا ہو
جب سورج دھوپ نہاتا ہو
یا شام نے بستی گھیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو

اک بار کہو تم میری ہو

کیا جھگڑا سود خسارے کا
یہ کاج ہیں بنجارے کا
سب سونا روپا لے جائے
سب دنیا، دنیا لے جائے
تم ایک مجھے بہتیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو

ابنِ انشاء

ہم لوگوں نے عشق ایجا کیا !



جب دہر کے غم سے اماں نہ ملی، ہم لوگوں نے عشق ایجاد کیا !
کبھی شہرِ بتاں میں خراب پھرے، کبھی دشتِ جنوں آباد کیا

کبھی بستیاں بن، کبھی کوہ و دمن،رہا کتنے دنوں یہی جی کا چلن
جہان حُسن ملا وہاں بیٹھ گئے، جہاں پیار ملا وہاں صاد کیا

شبِ ماہ میں جب بھی یہ درد اٹھا، کبھی بیت کہے ، لکھی چاندنگر
کبھی کوہ سے جاسر پھوڑ مرے، کبھے قیس کو جا استاد کیا

یہی عشق بالآخر روگ بنا، کہ ہے چاہ کے ساتھ بجگ بنا
جسے بننا تھا عیش وہ سوگ بنا، بڑا مَن کے نگر میں فساد کیا

اب قربت و صحبتِ یار کہاں، اب و عارض و زلف و کنار کہاں
اب اپنا بھی میر سا عالم ہے، ٹک دیکھ لیا جی شاد کیا

ابنِ انشاء

ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ آرام کہاں



ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ آرام کہاں
آج یہاں کل اور نگر میں، صبح کہاں اور شام کہاں

ہم سے بھی پیت کی بات کرو کچھ، ہم سے بھی لوگو پیار کرو
تم تو پشیمان ہو بھی سکو گے، ہم کو یہاں پہ دوام کہاں

سانجھ سمے کچھ تارے نکلے، پل بھر چمکے ڈوب گئے
انبر انبر ڈھونڈ رہا ہے اب انہیں ماہِ تمام کہاں

دل پہ جو بیتے سہ لیتے ہیں، اپنی زباں میں کہ لیتے ہیں
انشاء جی ہم لگ کہاں اور میر کا رنگِ کلام کہاں

اک بات کہیں گے انشاء جی تمھیں ریختہ کہتے دیر ہوئی
تم ایک جہاں کا علم پڑھے، کوئی میر سا شعر کہا تم نے؟

ابنِ انشاء

ہم ان سے اگر مل بیٹھے ہیں



ہم ان سے اگر مل بیٹھے ہیں، کیا دوش ہمارا ہوتا ہے
کچھ اپنی جسارت ہوتی ہے، کچھ ان کا اشارا ہوتا ہے

کٹنے لگیں راتیں آنکھوں میں، دیکھا انہیں پلکوں پہ اکثر
یا شامِ غریباں کا جگنو، یا سورج کا تارا ہوتا ہے

ہم دل کو لئے ہر دیس پھرے، اس جنس کے گاہک مل نہ سکے
اے بنجاروں ہم لوگ چلے، ہم کو تو خسارا ہوتا ہے

دفتر سے اٹھے کیفے میں گئے، کچھ شعر کہے، کچھ کافی پی
پوچھو جو معاش کا انشاء جی یوں اپنا گزارا ہوتا ہے

ابنِ انشاء


اے منوالی، بدلی کالی، روپ کا رس برستی جا



اے منوالی، بدلی کالی، روپ کا رس برستی جا
دل والوں کی اُجڑی بستی، سونا دھام بساتی جا

دیوانوں کا روپ نہ دھاریں، یا دھاریں? بتلاتی جا
ماریں یا ہمیں اینٹ نہ ماریں، لوگوں سے فرماتی جا

اور بہت سے رشتے تیرے، اور بہت سے تیرے نام
آج تو ایک ہمارے رشتے، محبوبہ کہلاتی جا

پورے چاند کی رات وہ ساگر، جس ساگر کا اور نہ چھور
یا ہم آج ڈبو دیں تجھ کو، یا تو ہمیں بچاتی جا

ہم لوگوں کی آنکھیں پلکیں راہ میں ہیں، کچھ اور نہیں
شرماتی گھبراتی گوری، اتراتی اٹھلاتی جا

دل والوں کی دور پہنچ ہے، ظاہر کی اوقات نہ دیکھ
ایک نظر میں بخشش دے کر، لاکھ ثواب کماتی جا

اور تو فیض نہیں کچھ تجھ سے، اے بےحاصل، اے بےمہر
انشاء جیسی نظمیں، غزلیں گیت کبت لکھواتی جا

ابنِ انشاء

اب نہ محمل نہ گردِ محمل ہے


اب نہ محمل نہ گردِ محمل ہے
اب نہ محمل نہ گردِ محمل ہے
اے جنوںِ دشت ہے کہ منزل ہے

اب تمہی راہ سے بھٹک جاؤ
دل کو سمجھانا سخت مشکل ہے

ناخُدا کو ڈبو دیا ہم نے
اب کسے آرزوئے ساحل ہے

ابنِ انشاء

دنیا بھر سے دور یہ نگری


دنیا بھر سے دور یہ نگری
دنیا بھر سے دور یہ نگری
نگری دنیا بھر سے نرالی
اندر ارمانوں کا میلا
باہر سے دیکھو تو خالی
ہم ہیں اس کٹیا کے جوگی
ہم ہیں اس نگری کے والی
ہم نے تو رکھا ہے زمانہ
تم آنا تو تنہا آنا

دل کی کٹیا دشت کنارے
بستی کا سا حال نہیں ہے
مکھیا،پیر،پروہت،پیادے
ان سب کا جنجال نہیں ہے
نہ بنیے،نہ سیٹھ نہ ٹھاکر
پینتھ نہیں ،چوپال نہیں
سونا،روپیہ۔ چوکی ،مسند
یہ بھی مال منال نہیں ہے
لیکن یہ جوگی دل والا
اے گوری کنگال نہیں ہے
چاہو جو چاہت کا خزانہ
تم آنا اور تنہا آنا
آہو مانگے بَن کا رمنہ
بھنورہ چاہے پھول کی ڈالی
سوکھے خیل کے کونپل مانگے
اک گھنگور بدریا کالی
دھوپ جلے کہیں سایہ چاہیں
اندھی راتیں دیپ دوالی
ہم کیا مانگیں ہم کیا چاہیں؟
ہونٹ سلے اور جھولی خالی
دل بھنورہ نہ پھول نہ کونپل
بگیا نہ بگیا کا مالی
دل آہو نہ دھوپ نہ سایہ
دل کی اپنی بات نرالی
دل تو کسی درشن کا بھوکا
دل تو کسی درشن کا سوالی
نام لیے بن پڑا پکارے
کسے پکارے دشت کنارے؟

یہ تو اک دنیا کو چاہیں
ان کو کس نے اپنا جانا
اور تو سب لوگوں کا ٹھکانہ
انشاء جی کا کون ٹھکانہ
اب بھٹکیں تو آپ ہی بھٹکیں
چھوڑا دنیا کو بھٹکانہ
گیت کتاب اور نظمیں غزلیں
یہ سب ان کا مال پرانا
جھوٹی باتیں سچی باتیں
بیتی باتیں کیا دہرانا
اب تو گوری نئے سرے سے
اندھیاروں میں دیپ جلانا
مجبوری؟ کیسی مجبوری
آنا ہو تو لاکھ بہانا

آنا اس کٹیا کے دوارے
دل کی کٹیا دشت کنارے

ابنِ انشاء

بستی میں دیوانے آئے



بستی میں دیوانے آئے
بستی میں دیوانے آئے
چھب اپنی دکھلانے آئے
دیکھ رے درشن کی لو بھی
کرکے لاکھ بہانے آئے
پیت کی ریت نبھانی مشکل
پیت کی ریت نبھانے آئے
اُٹھ اور کھول جھروکا گوری
سب اپنے بیگانے آئے
پیر، پروہت، مُلّا، مُکھیا
بستی کے سب سیانے آئے
طعنے، مہنے، اینٹیں، پاتھر
ساتھ لئے نذرانے آئے
سب تجھ کو سمجھانے والے
آج انہیں سمجھانے آئے
اب لوگوں سے کیسی چوری?
اُٹھ اور کھول جھروکا گوری
درشن کی برکھا برسا دے
ان پیاسوں کی پیاس بُجھا دے
اور کسی کے دوار نہ جاویں
یہ جو انشاء جی کہلا دیں
تجھ کو کھو کر دنیا کھوئے
ہم سے پوچھو کتنا روئے
جگ کے ہوں دھتکارے ساجن
تیرے تو ہیں پیارے ساجن
گوری روکے لاکھ زمانہ
ان کو آنکھوں میں بٹھلانا

بجھتی جوگ جگانے والے
اینٹیں پاتھر کھانے والے
اپنے نام کو رسوا کرکے
تیرا نام چھپانے والے
سب کچھ بوجھے، سب کچھ جانے ؟
انجانے بن جانے والے
تجھ سے جی کی بات کہیں کیا
اپنے سے شرمانے والے
کرکے لاکھ بہانے آئے
جوگی لیکھ جگانے آئے

دیکھ نہ ٹوٹے پیت کی ڈوری
اُٹھ اور کھول جھروکا گوری

ابنِ انشاء

لب پر کسي کا بھي ہو، دل ميں تيرا نقشا ہے



لب پر کسي کا بھي ہو، دل ميں تيرا نقشا ہے
اے تصوير بنانے والي، جب سے تجھ کو ديکھا ہے

بے ترے کيا وحشت ہم کو، تجھ بن کيسا صبر و سکوں
تو ہي اپنا شہر ہے جاني تو ہي اپنا صحرا ہے

نيلے پربت، اودي دھرتي، چاروں کوٹ ميں تو ہي تو
تجھ سے اپنے جي خلوت، تجھ سے من کا ميلا ہے

آج تو ہم بکنے کو آئے، آج ہمارے دام لگا
يوسف تو بازار وفا ميں ايک ٹکے کو بکتا ہے

لے جاني اب اپنے من کے پيراہن کي گرہيں کھول
لے جاني اب آدھي شب ہے چار طرف سناٹا ہے

طوفانوں کي بات نہيں ہے، طوفاں آتے جاتے ہيں
تو اک نرم ہواکا جھونکا، دل کے باغ ميں ٹھہرا ہے

ياتو آج ہميں اپنالے يا تو آج ہمارا بن
ديکھ کہ وقت گزرتا جائے، کون ابد تک جيتا ہے

فردا محض فسوں کا پردا، ہم تو آج کے بندے ہيں
ہجر و وصل وفا اور دھوکا سب کچھ آج پہ رکھتا ہے

ابنِ انشا

دروازہ کھلا رکھنا


دل درد کي شدت سے خون گشتہ و سي پارہ
دل درد کي شدت سے خون گشتہ و سي پارہ
اس شہر میں پھرتا ہے اک وحشي و آوارہ
شاعر ہے کہ عاشق ہے جوگي ہے کہ بنجارہ

دروازہ کھلا رکھنا

سينے سے گھٹا اٹھے، آنکھوں سے جھڑي بر سے
پھاگن کا نہيں بادل جو چار گھڑي بر سے
برکھا ہے یہ بھادوں کی، جو برسے تو بڑی برسے

دروازہ کھلا رکھنا

ہاں تھام محبت کي گر تھام سکے ڈوري
ساجن ہے ترا ساجن، اب تجھ سےتو کيا چوري
جس کي منادي ہے بستي ميں تري گوري

دروازہ کھلا رکھنا

ابنِ انشا

اس آنگن کا چاند



شام سمے ایک اُونچی سیڑھوں والے گھر کے آنگن میں
چاند کو اُترے دیکھا ہم نے، چاند بھی کیسا؟ پورا چاند

انشاء جی ان چاہنے والی، دیکھنے والی آنکھوں نے
ملکوں ملکوں، شہروں شہروں، کیسا کیسا دیکھا چاند

ہر اک چاند کی اپنی دھج تھی، ہر اک چاند کا اپنا روپ
لیکن ایسا روشن روشن، ہنستا باتیں کرتا چاند ؟

درد کی ٹھیس بھی اٹھتی تھی، پر اتنی بھی، بھرپور کبھی؟
آج سے پہلے کب اترا تھا دل میں میرے گہرا چاند !

ہم نے تو قسمت کے در سے جب پائے، اندھیرے پائے
یہ بھی چاند کا سپنہ ہوگا، کیسا چاند کہاں کا چاند ؟

انشاء جی دنیا والوں میں بےساتھی بے دوست رہے
جیسے تاروں کے جھرمٹ میں تنہا چاند، اکیلا چاند

ان کا دامن اس دولت سے خالی کا خالی ہی رہا
ورنہ تھے دنیا میں کتنے چاندی چاند اور سونا چاند

جگ کے چاروں کوٹ میں گھوما، سیلانی حیران ہوا
اس بستی کے اس کوچے کے اس آنگن میں ایسا چاند ؟

آنکھوں میں بھی، چتون میں بھی، چاندہی چاند جھلکتے ہیں
چاند ہی ٹیکا، چاند ہی جھومر، چہرہ چاند اور ماتھا چاند

ایک یہ چاندنگر کا باسی، جس سے دور رہا سنجوگ
ورنہ اس دنیا میں سب نے چاہا چاند اور پایا چاند

امبر نے دھرتی پر پھینکی نور کی چھینٹ اداس اداس
آج کی شب تو آندھی شب تھی، آج کدھر سے نکلا چاند

انشاء جی یہ اور نگر ہے، اس بستی کی رِیت یہی ہے
سب کی اپنی اپنی آنکھیں، سب کا اپنا اپنا چاند

اپنا سینے کے مطلع پر جو بھی چمکا وہ چاند ہوا
جس نے مَن کے اندھیارے میں آن کیا اُجیارا چاند

چنچل مسکاتی مسکاتی گوری کا مُکھڑا مہتاب
پت جھڑ کے پیڑوں میں اٹکا، پیلا سا اِک پتہ چاند

دکھ کا دریا، سُکھ کا ساگر، اس کے دم سے دیکھ لئے
ہم کو اپنے ساتھ ہی لے کر ڈوبا اور اُبھرا چاند

روشنیوں کی پیلی کرنیں، پورب پچھم پھیل گئیں
تو نے کس شے کےدھوکے میں پتھر پہ دے ٹپکا چاند

ہم نے تو دونوں کو دیکھا، دونوں ہی بےدرد خطور
دھرتی والا، امبر والا، پہلا چاند اور دوجا چاند

چاند کسی کا ہو نہیں سکتا، چاند کسی کا ہوتا ہے ؟
چاند کی خاطر زِد نہیں کرتے، اے میرے اچھے انشاء چاند

ابنِ انشا

رات کے خواب سنائیں کس کو



رات کے خواب سنائیں کس کو، رات کے خواب سہانےتھے
دھندلے دھندلے چہرے تھے، پر سب جانے پہچانے تھے

ضدّی، وحشی، الہڑ، چنچل، میٹھے لوگ رسیلے لوگ
ہونٹ ان کے غزلوں کے مصرعے، آنکھوں میں افسانے تھے

وحشت کا عنوان ہماری، ان میں سے جو نام بنی
دیکھیں گے تو لوگ کہیں گے، انشاء جی دیوانے تھے

یہ لڑکی تو ان گلیوں میں روز ہی گھوما کرتی تھی
اس سے ان کو ملنا تھا تو اس کے لاکھ بہانے تھے

ہم کو ساری رات جگایا، جلتے بُجھتے تاروں نے
ہم کیوں ان کے در پر اُترے، کتنے اور ٹھکانے تھے

ابنِ انشاء

کبھی ان کے ملن کی اک جوت جگا دی تھی من میں


کبھی ان کے ملن کی اک جوت جگا دی تھی من میں
اب من کا اجالا سنو لایا، پھر شام ہے من کے آنگن میں

جو گھلتا ہے آنسو ڈھلتے ہیں ہر نیر میں دیپ سے جلتے ہیں
اب بِرھا سے دل کی آگ بُجھے یہ تو اور بھی بھڑکے ساون

چلو انشاء کے پاس چلیں، سنیں گیت منوہر پریم بھرے
جنھیں سن لیں تو من کو مسوس مریں سبھی گوپیاں گوکل کے بِن

یہ چھیل چھبیلا کو پھرے اس متھرا کی نگری میں سیکھو
سبھی باتیں کہ اپنے شیام میں تھیں اب دیکھ لو اس من موہن

کبھی میر فقیر کی بتیوں سے، کبھی غزلوں سے انشا صاحب کی
ان برھا کی بےکل راتوں میں ہم جوت جگاتے ہیں من میں

ابنِ انشاء

خوب ہمارا ساتھ نبھایا، بیچ بھنور میں چھوڑا ہات


خوب ہمارا ساتھ نبھایا، بیچ بھنور میں چھوڑا ہات
ہم کو ڈبو کر خود ساحل پر جا نکلے ہو، اچھی بات

شام سے لے کر پو پھٹنے تک کتنی رُتیں بدلتی ہیں
آس کی کلیاں یاس کے پت جھڑ صبح کے اشکوں کی برسات

اپنا کام تو سمجھانا ہے، اے دل رشتے توڑ کے جوڑ
ہجر کی راتیں لاکھوں کروڑوں، وصل کے لمحے پانچ کے سات

ہم سے ہمارا عشق نہ چھینو، حسن کی ہم کو بھیک نہ دو
تم لوگوں کے دور ٹھکانے، ہم لوگوں کی کیا اوقات

روگ تمہارا اور ہے انشاء، بیدوں سے کیوں چہل کرو
درد کے سودے کرنے والے، درد سے پا سکتے ہیں نجات

ابنِ انشاء

کل ہم نے سپنا دیکھا ہے



کل ہم نے سپنا دیکھا ہے
کل ہم نے سپنا دیکھا ہے
جو اپنا ہو نہیں سکتا
اس شخص کو اپنا دیکھا ہے

وہ شخص کے جس کی خاطر ہم
اِس دیس پھریں، اُس دیس پھریں
جوگی کا بنا کر بھیس پھریں
چاھت کے نرالے گیت لکھیں
جی موہنے والے گیت لکھیں
دھرتی کے مہکتے باغوں سے
کلیوں کی جھولی بھر لائیں
انبر کے سجیلے منڈل سے
تاروں کی ڈولی بھر لائیں

ہاں کس کے لئے، ہاں اُس کے لئے
وہ جس کے لب پر ٹیسو ہیں
وہ جس کے نیناں آہو ہیں
جو خار بھی ہے اور خوشبو بھی
جو درد بھی ہے اور دارو بھی
وہ الھڑ سی، وہ چنچل سی
وہ شاعر سی وہ پاگل سی
لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں
ہم نام نہ اس کا بتلائیں

اے دیکھنے والے تم نے بھی
اس نار کی پیت کی آنچوں میں
اس دل کا تپنا دیکھا ہے؟
کل ہم نے سپنا دیکھا ہے

ابنِ انشاء

اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا


اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا
وہ شہر، وہ کوچہ، وہ مکاں یاد رہے گا

وہ ٹیس کہ ابھری تھی ادھر یاد رہے گی
وہ درد کہ اٹھا تھا یہاں یاد رہے گا

ہم شوق کے شعلے کی لپک بھول بھی جائیں
وہ شمعِ فسردہ کا دھواں یاد رہے گا

ہاں بزمِ شبانہ میں ہمیں شوق جو اس دن
ہم تو تری جانب نگراں یاد رہے گا

کچھ میر کے ابیات تھے، کچھ فیض کے مصرعے
اک درد کا تھا، جن میں بیاں یاد رہے گا

جاں بخش سی اس برگِ گُلِ تر کی تراوت
وہ لمس عزیز دہ جہاں یاد رہے گا

ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے
تو یاد رہے گا ہمیں، ہاں یاد رہے گا

ابنِ انشاء

Monday, November 15, 2010

ديکھ بيت المقدس کي پر چھائياں



ديکھ بيت المقدس کي پر چھائياں

اجنبي ہو گئيں جس کي پہنائياں

ہر طرف پرچم نجم دائود ہے

راہ صحرہ کي گنبد کي مسدود ہے

رفعت آخريں عالم پست کي

منزل اوليں تا سماجست کي

سجدہ گاہ عمر مسجد پاک ميں

آج خالي مصلے اتے خاک ميں

ہر طرف فوج و جال طعون ہے

منزل و سوق و بازار ميں خون ہے

ميں نہ لوٹوں گا مجھ کو نہ آواز دو

جب تلک ملک ميرا نہ آزاد ہو

قول ہارا تھا جس مرد بے باک نے

ہاں اسے بھي پناہ دي تري خال نے

وہ کہ جوہر تھا شمشير اسلام کا

ايک ہندي محمد علي نام کا

آج يورو شلم تو جو پامال ہے

روح آزاد کا اس کي کيا حال ہے

Friday, November 12, 2010

بھارت – ابن انشا کے مضامین


یہ بھارت ہے، گاندھی جی یہی پیدا ہوئے تھے، لوگ ان کی بڑی عزت کرتے تھے، ان کو مہاتما کہتے تھے، چنانچہ مار کر ان کو یہیں دفن کر دیا اور سمادھی بنا دی، دوسرے ملکوں کے بڑے لوگ آتے ہیں تو اس پر پھول چڑھاتے ہیں، اگر گاندھی جی نہ مرتے یعنی نہ مارے جاتے تو پورے ہندوستان میں عقیدت مندوں کیلئے پھول چڑھانے کی کوئی جگہ نہ تھی، یہی مسئلہ ہمارے یعنی پاکستان والوں کے لئے بھی تھا، ہمیں قائدِ اعظم کا ممنون ہونا چاہئیے کہ خود ہی مرگئے اور سفارتی نمائندوں کے پھول چڑھانے کی ایک جگہ پیدا کردی ورنہ شاید ہمیں بھی ان کو مارنا ہی پڑتا۔ بھارت بڑا امن پسند ملک ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اکثر ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اس کے سیز فائر کے معاہدے ہوچکے ھیں،1965 میں ہمارے ساتھ ہوا اس سے پہلے چین کے ساتھ ہوا۔ بھارت کا مقدس جانورگائے ہے ، بھارتی اس کا دودہ پیتے ہیں، اسی کے گوبر سے چوکا لیپتے ہیں، اور اس کو قصائی کے ہاتھ بیچتے ہیں، اس لئیے کیونکہ وہ خود گائے کو مارنا یا کھانا پاپ سمجھتے ہیں۔
آدمی کو بھارت میں مقدس جانور نہیں گنا جاتا۔ بھارت کے بادشاہوں میں راجہ اشوک اور راجہ نہرو مشہور گزرے ہیں۔ اشوک سے ان کی لاٹ اور دہلی کا شوکا ھوٹل یادگار ہیں، اور نہرو جی کی یادگار مسئلہ کشمیر ہے جو اشوک کی تمام یادگاروں سے زیادہ مظبوط اور پائیدار معلوم ہوتا ہے ۔ راجہ نہرو بڑے دھر ماتما آدمی تھے، صبح سویرے اٹھ کر شیر شک آسن کرتے تھے، یعنی سر نیچے اور پیر اوپر کرکے کھڑے ہوتے تھے، رفتہ رفتہ ان کو ہر معاملے کو الٹا دیکھنے کی عادت ہوگئی تھی، حیدر آباد کے مسئلہ کو انہوں نے رعایا کے نقطہ نظر سے دیکھا۔ یوگ میں طرح طرح کے آسن ہوتے ہیں، نا واقف لوگ ان کو قلابازیاں سمجھتے ہیں، نہرو جی نفاست پسند بھی تھے دن میں دو بار اپنے کپڑے اور قول بدلا کرتے تھے

بابر – ابن انشا کے مضامین


بابر شاہ سمر قند سے ہندوستان آیا تھا، تاکہ یہاں خاندان مغلیہ کی بنیاد ڈال سکے، یہ کام تو وہ بحسن و خوبی اپنے وطن میں بھی کرسکتا تھا، البتہ پانی پت کی پہلی لڑائی میں اس کی موجودگی ضروری تھی، یہ نہ ہوتا تو وہ لڑائی ایک طرفہ ہوتی، ایک طرف ابراہیم لودھی ہوتا دوسری طرف کوئی بھی نہ ہوتا، لوگ اس لڑائی کا حال پڑھ پڑھ کر ہنسا کرتے۔ یہ بادشاہ تزک لکھتا تھا، ٹوٹے پھوٹے شعر بھی کہتا تھا، پیشن گوئیاں بھی کرتا تھا، کہ عالم دوبارہ نیست اور دو آدمیوں کو بغل میں داب کر دوڑ بھی لگایا کرتا تھا، ظاہر ہے اتنی مصروفیتوں میں امور مملکت کیلئے کتنا وقت نکل سکتا تھا، شراب بھی پیتا تھا، یاد رہے، اس زمانے کے لوگوں کو مذہبی احکام کو ایسا پاس نہ تھا، جیسا ہمیں ہے، کہ محرم کے عشرہ کے دوران میں شراب کی دوکانیں بند رہتی ہیں، کسی کو پینی ہو تو گھر میں بیٹھ کر پئیے، کابل کو بہت یاد کرتا تھا، وہیں دفن ھوا، اس زمانے میں کابل شہر اتنا گندہ نہیں ہوتا تھا جتنا آجکل ہے۔

اکبر – ابن انشا کے مضامین

آپ نے حضرت ملا دو پیازہ اور بیربل کے ملفوظات میں اس بادشاہ کا حال پڑھا ہوگا، راجپوت مصوری کے شاہکاروں میں اس کی تصویر بھی دیکھی ہوگی، ان تحریروں اور تصویروں سے یہ گمان ہوتا ہے، کہ بادشاہ سارا وقت داڑھی گھٹوانے، مونچھیں تراشوائے، اکڑوں بیٹھا پھول سونگھتا رہتا تھا یا لطیفے سنتا رہتا تھا، یہ بات نہیں اور کام بھی کرتا تھا۔ اکبر قسمت کا دھنی تھا، چھوٹا سا تھا کہ باپ بادشاہ ستارے دیکھنے کے شوق میں کوٹھے سے گر کر جاں بحق ہو گیا، اور تاج و تخت اسے مل گیا، ایڈورڈ ہفتم کی طرح چونسٹھ برس ولی عہدی میں نہیں گزارنے پڑے، ویسے اس زمانے میں اتنی لمبی ولی عہدی کا رواج بھی نہ تھا، ولی عہد لوگ جونہی باپ کی عمر کو معقول حد سے تجاوز کرتا دیکھتے تھے اسے قتل کرکے، یا زیادہ رحم دل ہوتے تو قید کرکے، تخت حکومت پر جلوہ افروز ہوجایا کرتے تھے، تاکہ زیادہ سے زیادہ دن رعایا کی خدمت کا حق ادا کر سکیں۔

پیاسا کوا – ابن انشا کے مضامین


ایک پیاسے کوے کو ایک جگہ پانی کا مٹکا پڑا نظر آیا۔ بہت خوش ہوا لیکن یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ پانی بہت نیچے فقط مٹکے کی تہہ میں تھوڑا سا ہے۔ سوال یہ تھا کہ پانی کو کیسے اوپر لائے اور اپنی چونچ تر کرے۔ اتفاق سے اس نے حکایات لقمان پڑھ رکھی تھی پاس ہی بہت سے کنکر پڑے تھے اس نے اٹھا کر ایک ایک کنکر اس میں ڈالنا شروع کیا۔ کنکر ڈالتے ڈالتے صبح سے شام ہوگئی۔ پیاسا تو تھا ہی نڈھال بھی ہوگیا۔ مٹکے کے اندر نظر ڈالی تو کیا دیکھتا ہے کہ کنکر ہی کنکر ہیں۔ سارا پانی کنکروں نے پی لیا ہے۔ بے اختیار اس کی زبان سے نکلا ہت ترے لقمان کی۔ پھر بے سدھ ہو کر زمین پرگرگیا اور مرگیا۔ اگر وہ کوا کہیں سے ایک نلکی لے آتا تو مٹکے کے منہ پر بیٹھا بیٹھا پانی کو چوس لیتا۔ اپنے دل کی مراد پاتا۔ ہرگز جان سے نہ جاتا۔

کبوتر -ابن انشا کے مضامین

کبوتر بڑے کام کا جانور ہے۔یہ آبادیوں میں جنگلوں میں، مولوی اسمٰعیل میرٹھی کی کتاب میں غرض یہ کہ ہر جگہ پایا جاتا ہے ۔کبوتر کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ نیلے کبوتر ۔سفید کبوتر ، نیلے کبوتر کی بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ نیلے رنگ کا ہوتا ہے سفید کبوتر بالعموم سفید ہی ہوتا ہے۔کبوتروں نے تاریخ میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں۔ شہزادہ سلیم نے مسماۃ مہر النساء کو جب کہ وہ ابھی بےبی نورجہان تھیں ۔کبوتر ہی تو پکڑایا تھا جو اس نے اڑا دیا اور پھر ہندوستان کی ملکہ بن گئی۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس سارے قصے میں زیادہ فائدے میں کون رہا؟ شہزادہ سلیم؟ نورجہاں؟ یا وہ کبوتر؟ رعایا کا فائدہ ان دنوں کبھی معرض بحث میں نہ آتا تھا۔ پرانے زمانے کے لوگ عاشقانہ خط و کتابت کے لئے کبوتر ہی استعمال کرتے تھے۔ اس میں بڑی مصلحتیں تھیں۔ بعد میں آدمیوں کو قاصد بنا کر بھیجنے کا رواج ہوا تو بعض اوقات یہ نتیجہ نکلا کہ مکتوب الیہ یعنی محبوب قاصد ہی سے شادی کر کے بقیہ عمر ہنسی خوشی بسر کر دیتا تھا۔چند سال ہوئے ہمارے ملک کی حزب مخالف نے ایک صاحب کو الٹی میٹم دے کر وائی ملک کے پاس بھیجا تھا۔ الٹی میٹم تو راستے میں کہیں رہ گیا۔ دوسرے روز ان صاحب کے وزیر بننے کی خبر اخباروں میں آ گئی۔ کبوتر کے ہاتھ یہ پیغام بھیجا جاتا تو یہ صورت حال پیش نہ آتی۔

 

چڑيا, چڑے کی کہانی – ابن انشاء



ايک تھي چڑيا، ايک تھا چڑا، چڑيا لائي دال کا دانا، چڑا لايا چاول کا دانا، اس سے کچھڑي پکائي، دونوں نے پيٹ بھر کر کھائي، آپس ميں اتفاق ہو تو ايک ايک دانے کي کچھڑي بھي بہت ہوتي ہے۔

چڑا بيٹھا اونگھ رہا تھا کہ اس کے دل ميں وسوسہ آيا کہ چاول کا دانا بڑا ہوتا ہے، دال کا دانا چھوٹا ہوتا ہے۔ پس دوسرے روز کچھڑي پکي تو چڑے نے کہا اس میں چھپن حصے مجھے دے، جواليس حصے تو لے، اے باگھوان پسند کر يا نا پسند کر ۔ حقائق سے آنکھ مت بند کر ، چڑے نے اپني چونچ ميں سے چند نکات بھي نکالے، اور بي بي نے آگے ڈالے۔ بي بي حيران ہوئي بلکہ رو رو کر ہلکان ہوئي کہ اس کے ساتھ تو ميرا جنم کا ساتھ تھا ليکن کيا کر سکتي تھي۔

دوسرے دن پھر چڑيا دال کا دانا لائي اور چڑا چاول کا دانا لايا۔ دونوں نے الگ الگ ہنڈيا چڑھائي، کچھڑي پکائي، کيا ديکھتے ہیں کہ دو ہي دانے ہيں، چڑے نے چاول کا دانا کھايا، چڑيا نے دال کا دانا اٹھايا ۔ چڑے کو خالي چاول سے پيچش ہوگئي چڑيا کو خالي دال سے قبض ہو گئي۔ دونوں ايک حکيم کے پاس گئے جو ايک بلا تھا، اس نے دونوں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھيرا اور پھيرتا ہي چلا گيا۔

يہ کہاني بہت پرانے زمانے کي ہے۔ آج کل تو چاول ايکسپورٹ ہو جاتا ہے اور دال مہنگي ہے۔ اتني کہ وہ لڑکياں جو مولوي اسماعيل ميرٹھي کے زمانے ميں دال بگھارا کرتي تھيں۔ آج کل فقط شيخي بگھارتي ہيں۔

تحریر : ابن انشاء

انارکلی



انارکلی ايک کنيز تھي جس کي وجہ سے شہزادہ سليم کا اخلاق خراب ہونے کا انديشہ تھا،اکبر نے اسے ديوار ميں چنوا ديا، ايک مصلحت اس ميں يہ تھي کہ سيد امتياز علي تاج اپنا معرکہ آرا ڈرامہ لکھ سکيں اور اردو ادب کے ذخيرے ميں ايک قيمتي اضافہ ہو سکے، درباري شاعري نظيري نيشا پوري نے ايک بار کہا کہ ميں نے لاکھ روپے کا ڈھير بھي نہيں ديکھا، بادشاہ نے ايک لاکھ خزانے سے نکلوا کر ڈھير لگا ديا، جب نظير اچھي طرح ديکہ چکا تو روپے واپس خزانے ميں بھجوا دئيے، نظيري ديکھتے کا ديکھتا رہ گيا، اصل ميں نظيري يہ حرکت خانخاناں کے ساتھ پہلے بھي کر چکا تھا، خانخاناں نے شاعر کي نيت کو بھانپ کر کہہ ديا تھا کہ اچھا اب يہ ڈھير تم اپنے گھر لے جائو، ليکن اکبر ايسا کچا آدمي نہ تھا۔

تحریر : ابن انشاء

جغرافیہ




ان پہاڑوں کو ديکھوں ،بعضوں کي چوٹياں آسمان سے باتيں کرتي ہيں۔ کيا باتيں کرتي ہيں؟ يہ کسي نے نہيں سنا۔ پہاڑوں کے اندر کيا ہوتا ہے؟ معلوم نہيں ۔ بعض اوقات پہاڑ کو کھودو تو اندر سے چوہا نکلتا ہے۔ بعض اوقات چوہا بھي نہيں نکلتا ۔ جس پہاڑ ميں سے چوہا نکلے اسے غنيمت جاننا چاہئيے۔

جو لوگ پہاڑوں پر رہتے ہيں ان کو گرم کپڑے تو ضرور بنوائے پڑتے ہيں ليکن ويسے کئي فائدے بھي ہيں ۔پہاڑوں پر برف جمي ہے جو ان لوگوں کو مفت مل جاتي ہے۔جتنا جي چاہے پاني ميں ڈال کر پيئيں ۔ برف ميں رہنے والوں کو ريفريجريٹر بھي نہيں خريدنے پڑتے پيسے بچتے ہيں۔

پہاڑ پتھروں کےبنے ہوتے ہيں۔ پتھر بہت سخت ہوتے ہيں ۔جس طرح محبوبوں کے دل سخت ہوتے ہيں ۔فرق يہ ہے کہ کبھي کبھي پتھر موم بھي ہو جاتے ہيں۔جو پہاڑ بہت بلندي دکھاتے ہيں ان کو کاٹتے ہيں اور کاٹ کر ان کے پتھر سڑکوں پر بچھاتے ہيں لوگ انہيں جوتوں سے پامال کرتے گزرتے ہيں ۔ جو پتھر زيادہ سختي دکھائيں وہ چکي ميں پستے ہيں ۔ سرمہ بن جاتے ہيں ۔ سارا پتھر پن بھول جاتے ہيں ۔



ا ب عمر کی نقدی ختم ہوئی – ابن انشاء



ا ب عمر کی نقدی ختم ہوئی
ا ب ہم کو ا دھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساہو کار بنے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے
کچھ سال ،مہینے، دن لوگو
پر سود بیاج کے بن لوگو
ہاں ا پنی جا ں کے خزانے سے
ہا ں عمر کے توشہ خانے سے
کیا کوئی بھی ساہو کار نہیں
کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں
جب نام ا دھر کا آیا
کیوںسب نے سر کو جھکایا ہے
کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں
جنہیں جاننے والے جانے ہیں
کچھ پیار ولار کے دھندے ہیں
کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں

ہم مانگتے نہیں ہزا ر برس
دس پانچ برس دو چار برس
ہاں ،سود بیا ج بھی دے لیں گے
ہا ں ا ور خرا ج بھی دے لیں گے
آسان بنے، دشوار بنے
پر کوئی تو دیون ہار بنے
تم کون ہو تمہارا نام ہے کیا
کچھ ہم سے تم کو کام ہے کیا
کیوں ا س مجمع میں آئی ہو
کچھ مانگتی ہو ؟ کچھ لاتی ہو
یہ کاروبار کی باتیں ہیں
یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں
ہم بیٹھے ہیں کشکول لیے
سب عمر کی نقدی ختم کیے
گر شعر کے رشتے آئی ہو
تب سمجھو جلد جدائی ہو
اب گیت گیا سنگیت گیا
ہا ں شعر کا موسم بیت گیا
اب پت جھڑ آئی پات گریں
کچھ صبح گریں، کچھ را ت گریں
یہ ا پنے یار پرانے ہیں
اک عمر سے ہم کو جانے ہیں
ان سب کے پاس ہے مال بہت
ہا ں عمر کے ماہ و سال بہت
ان سب کو ہم نے بلایا ہے
ا ور جھولی کو پھیلایا ہے
تم جاؤ ا ن سے بات کریں
ہم تم سے نا ملاقات کریں

کیا پانچ برس ؟کیا عمر ا پنی کے پانچ برس ؟
تم جا ن کی تھیلی لائی ہو ؟
کیا پاگل ہو ؟ سو دائی ہو ؟
جب عمر کا آ خر آتا ہے
ہر دن صدیاں بن جاتا ہے
جینے کی ہوس ہی زالی ہے
ہے کون جو ا س سے خالی ہے
کیا موت سے پہلے مرنا
تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے
پھر تم ہو ہماری کون بھلا
ہا ں تم سے ہمارا رشتہ کیا ہے
کیا سود بیاج کا لالچ ہے ؟
کسی ا ور خرا ج کا لالچ ہے ؟
تم سوہنی ہو ، من موہنی ہو ؛
تم جا کر پوری عمر جیو
یہ پانچ برس، یہ چار برس
چھن جائیں تو لگیں ہزار برس

سب دوست گئے سب یار گئے
تھے جتنے ساہو کار ، گئے
بس ایک یہ ناری بیٹھی ہے
یہ کون ہے ؟ کیا ہے ؟ کیسی ہے ؟
ہا ں عمر ہمیں درکار بھی ہے ؟
ہا ں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے
جب مانگیں جیون کی گھڑیاں
گستاخ اکھیاں کت جا لڑیاں
ہم قرض تمہیں لوٹا دیں گے
کچھ ا ور بھی گھڑیاں لا دیں گے
جو ساعت و ماہ و سال نہیں
وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
لو ا پنے جی میں ا تار لیا
لو ہم نے تم کو ادھار لیا


Wednesday, November 10, 2010

فرض کرو ہم اہلِ وفا ہوں



فرض کرو ہم اہلِ وفا ہوں ، فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو یہ دونوں باتیں جُهوٹی ہوں افسانے ہوں

فرض کرو یہ جی کی بِپتا ، جی سے جوڑ سنائی ہو
فرض کرو ابهی اور ہو اتنی، آدهی ہم نے چهپائی ہو

فرض کرو تمہیں خوش کرنے کے ڈهونڈے ہم نے بہانے ہوں
فرض کرو یہ نین تمہارے سچ مچ کے مئے خانے ہوں

فرض کرو یہ روگ ہو جُهوٹا، جُهوٹی پِیت ہماری ہو
فرض کرو اس پِیت کے روگ میں سانس بهی ہم پر بهاری ہو

فرض کرو یہ جوگ بجوگ کا ہم نے ڈهونگ رچایا ہو
فرض کرو بس یہی حقیقت باقی سب کچھ مایا ہو

دیکھ میری جاں، کہہ گئے باہو، کون دلوں کی جانے ہُو
بستی بستی صحرا صحرا، لاکهوں کریں دوانے ہو

جوگی بهی جو نگر نگر میں مارے مارے پهرتے ہیں
کاسہ لئے بهبوت رمائے سب کے دوارے پهرتے ہیں

شاعر بهی جو میٹهی بانی بول کے من کو ہرتے ہیں
بنجارے جو اونچے داموں جی کے سودے کرتے ہیں

ان میں سچے موتی بهی ہیں، ان میں کنکر پتهر بهی
ان میں اتهلے پانی بهی ہیں، ان میں گہرے ساگر بهی

گوری دیکھ کے آگے بڑهنا، سب کا جهوٹا سچا ، ہو
ڈوبنے والی ڈوب گئی وہ گهڑا تها جس کا کچہ، ہو

ابنِ انشاء


I don't know why. But This is the only thing that I don't like in all the things that I have read from the Urdu literature and poetry added by Ibn-e-Insha.

Friday, October 29, 2010

تاریخ – ابن انشاء

شاہ جہاں جہانگیر کا بیٹا اور اکبر کا پوتا تھا کسی عمارتی ٹھیکیدار کا نور نظر نہ تھا نہ کسی پی ڈبلیو ڈی والے کا مورث اعلی تھا جیسا کہ لوگ اسے اتنی ساری عمارتیں بنانے کی وجہ سے سمجھ لیتے ہیں ۔


تاج محل اس کی بنائی ہوئی عمارتوں میں سب سے پہلے زیادہ مشہور ہے اس کی تعمیر میں بھی اتنے ہی برس لگے جتنے قائد اعظم محمد علی جناح کے مقبرے کو لگے تھے، اگر کوئی فرق ان دونوں مقبروں کی خوبصورتی اور تعمیر میں ہے تو اس کی وجہ ظاہر ہے شاہجہاں کے زمانے تک تعمیر اور نقشہ سازی میں اتنی ترقیاں نہ ہوئی تھی پتھر وغیرہ ڈھونے گھسنے چمکانے وغیرہ کے طریقے بھی پرانے اور دیر طلب تھے مشینی گاڑیاں اور بجلی کی سریع الرفتار مشینیں بھی ایجاد نہ ہوئی تھیں۔


ایک بات یہ بھی ہے کہ قائد اعظم کروڑوں آدمیوں کے محبوب تھے جبکہ ممتاز محل صرف ایک شخص کی محبوبہ بایں ہمہ اس زمانے کے اعتبار سے ہم تاج محل کو بہت اچھی عمارت کہہ سکتے ہیں ۔


شاہ جہاں بہت دور کی نظر رکھتا تھا تاج محل نہ ہوتا تو آج بھارت کی ٹورسٹ انڈسٹری کو اتنی ترقی نہ ہوتی، اتنا زرمبادلہ نہ حاصل ہوتا اس کے دیگر نتائج بھی دور رس ہیں تاج محل نہ ہوتا تو تاج محل بیٹری بھی نہ ہوتی تاج محل چپل بھی نہ ہوتی تاج محل مکھن نہ ہوتا جو صحت بخش اجزا کا مرکب ہے اور جسے تیاری کے دوران میں ہاتھوں سے نہیں چھوا جاتا، حتٰی کہ کپڑے دھونے کی خاطر تاج محل صابن بھی نہ ہوتا یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ تاج محل نہ ہوتا تو لوگ کیلینڈروں پر تصویریں کس چیز کی چھاپتے ۔


شاہجہاں نے کئی مسجدیں بھی بنائیں موتی مسجد اور دلی کی جامع مسجد وغیرہ لال قلعہ بھی بنایا۔ بہادر شاہ ظفر اسی میں مشاعرہ وغیرہ کرایا کرتے تھے تخت طاؤس بھی شاہجہاں ہی نے بنایا تھا اس میں اپنی طرف سے ہیرے جواہر وغیرہ جڑے تھے لیکن اس کے جانشینوں کو پسند نہیں آیا محمد شاہ نے اسے اٹھا کر نادر شاہ کو دے دیا وہ ایران لے گیا اور اس کا کھوپرا کھا لیا ۔


شاہجہاں کا زمانہ امن کا زمانہ تھا پھر بھی اس نے چند فتوحات کر ہی ڈالیں تاریخوں والے لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں چوری چکاری بھی نہیں ہوتی تھی رشوت خوری بھی نہ تھی خدا جانے اس زمانے کے اہلکار کیا کھاتے ہوں گے ۔


جہانگیر کا مقبرہ بھی شاہجہاں نے بنایا تھا یہ قیاس کرنا غلط ہے کہ شیر افگن نے بنوایا ہو گا ۔


اردو کی آخری کتاب - ابن انشاء

Friday, October 15, 2010

اِک بار کہو تم میری ہو



ہم گھوم چکے بستی بَن میں
اِک آس کی پھانس لیے من میں
کوئی ساجن ہو، کوئی پیارا ہو
کوئی دِیپک ہو، کوئی تارا ہو
جب جیون رات اندھیری ہو
اِک بار کہو تم میری ہو

جب ساون بادل چھائے ہوں
جب پھاگن پھول کھلائے ہوں
جب چندا رُوپ لٹاتا ہو
جو سورج دُھوپ نہاتا ہو
یا شام نے بستی گھیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو

ہاں دل کا دامن پھیلا ہے
کیوں گوری کا دل میلاہے
ہم کب تک پِیت کے دھوکے میں
تم کب تک دُور جھروکے میں
کب دید سے دل کو سیری ہو
اِک بار کہو تم میری ہو

کیا جھگڑا سُود خسارے کا
یہ کاج نہیں بخارے کا
سَب سونا رُوپا لے جائے
سب دنیا دنیا لے جائے
تم ایک مجھے بہتیری ہو
اِک بار کہو تم میری ہو

(ابنِ انشا)

Saturday, October 9, 2010

جوگن کا بھیس




جوگن کا بنا کر بھيس پِھرے
بِرہن ہے کوئی چوديس پھرے

سينے ميں ليے سينے کی دُکھن، آتی ہے پوَن جاتی ہے پوَن
پھولوں نے کانٹوں نے کہا
کچھ دير ٹھہر دامن نہ چُھڑا
پر اس کا چلن وحشی کا چلن، آتی ہے پوَن جاتی ہے پوَن

اُس کو تو کہيں مسکن نہ مکاں
آوارہ بہ دل آوارہ بہ جاں
لوگوں کے ہيں گھر لوگوں کے وطن، آتی ہے پوَن جاتی ہے پوَن

يہاں کون پوَن کی نگاہ ميں ہے؟
وہ جو راہ ميں ہے، بس راہ ميں ہے
پربت کہ نگر، صحرا کہ چمن، آتی ہے پوَن جاتی ہے پوَن

رُکنے کی نہيں جا، اٹھ بھی چُکو
انشا جی چلو، ہاں تم بھی چلو
اور ساتھ چلے دُکھتا ہوا من، آتی ہے پوَن جاتی ہے پوَن

ابنِ انشاء

Saturday, September 25, 2010

بادشاہ



ایک بار مینڈکوں نے خدا سے دُعا کی کہ یا پروردگار ہمارے لئے کوئی بادشاہ بیھج۔ باقی سب مخلوقات کے بادشاہ ہیں۔ ہمارا کوئی بھی نہیں ہے۔ خداوند نے اُن کی سادہ لوحی پر نظر رتے ہوئے لکڑی کا ایک کندہ جوہڑ میں پھینکا۔ بڑے زوروں کے چھینٹے اُڑے۔ پہلے تو سب ڈر گئے۔ تھوڑی دیر بعد یہ دیکھ کر کہ وہ لمبا لمبا پڑا ہے ڈرتے ڈرتے قریب آئے پھر اس پر چڑھ گئے اور ٹاپنے لگے۔ چند دن بعد دوبارہ خداوند کو عرضی دی کہ یہ بادشاہ ہمیں پسند نہیں آیا۔ کوئی اور بھیج جو ہمارے شایانِ شان ہو۔ خداوند نے ناراض ہو کر ایک سمندری سانپ بھیج دیا۔ وہ آتے ہی بہتوں کو چٹ کر گیا۔ باقی کونوں کُھدروں میں جا چھپے۔

Thursday, September 23, 2010

ابنِ انشا – جوگ بجوگ کی باتیں جُھوٹی، سب جی کا بہلانا ہو


جوگ بجوگ کی باتیں جُھوٹی، سب جی کا بہلانا ہو
پھر بھی ہم سے جاتے جاتے ایک غزل سن جانا ہو

ساری دنیا عقل کی بیَری، کون یہاں پر سیانا ہو
ناحق نام دھریں سب ہم کو، دیوانا دیوانا ہو

نگری نگری لاکھوں دوارے، ہر دوارے پر لاکھ سخی
لیکن جب ہم بھول چکے ہیں، دامن کا پھیلانا ہو

سات سمندر پار کی گوری، کھیل ذرا کرتار کے دیکھ
ہم کو تو اس شہر میں ملنا، اُس کو تھا ملوانا ہو

تیرے یہ کیا جی میں آئی، کھینچ لیے شرما کے ہونٹ
ہم کو زہر پلانے والی، امرت بھی پلوانا ہو

ساون بیتا، بھادوں بیتا، اجڑے اجڑے من کے کھیت
کوئل اب تو کوک اٹھانا، میگھا مینہہ برسانا ہو

ایک ہی صورت، ایک ہی چہرہ، بستی، پربت، جنگل، پینٹھ
اور کسی کے اب کیا ہونگے، چھوڑ ہمیں بھٹکانا ہو

ہم بھی جُھوٹے، تم بھی جُھوٹے، ایک اسی کا سچّا نام
جس سے دیپک جلنا سیکھا، پروانا جل جانا ہو

سیدھے من کو آن دبوچیں، میٹھی باتیں، سُندَر بول
میر، نظیر، کیبر اور انشا، سارا ایک گھرانا ہو
---ابنِ انشا---

Friday, September 17, 2010

دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دشتِ طلب کی دھول میاں


دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دشتِ طلب کی دھول میاں
ہم سے عجب ترا درد کا ناتا، دیکھ ہمیں مت بھول میاں

اہلِ وفا سے بات نہ کرنا، ہوگا ترا اصول میاں
ہم کیوں چھوڑیں ان گلیوں کے پھیروں کا معمول میاں

یونہی تو نہیں دشت میں پہنچے، یونہی تو نہیں جوگ لیا
بستی بستی کانٹے دیکھے، جنگل جنگل پھول میاں

یہ تو کہو کبھی عشق کیا ہے ؟ جگ میں ہوئے ہو رُسوا بھی؟
اس کے سِوا ہم کُچھ بھی نہ پوچھیں، باقی بات فضول میاں

نصب کریں محرابِ تمنّا، دیدہ و دل کو فرش کریں
سُنتے ہیں وہ کُوئے وفا میں آج کریں گے نزول میاں

سُن تو لیا کسی نار کی خاطر کاٹا کوہ، نکالی نہر
ایک ذرا سے قصے کو اب دیتے ہو کیوں طُول میاں

کھیلنے دیں انہیں عشق کی بازی، کھیلیں گے تو سیکھیں گے
قیس کی یا فرہاد کی خاطر کھولیں کیا اسکول میاں

اب تو ہمیں منظور ہے یہ بھی، شہر سے نکلیں، رُسوا ہوں
تجھ کو دیکھا، باتیں کرلیں، محنت ہوئی وصول میاں

انشاء جی کیا عذر ہے تم کو، نقدِ دل و جاں نذر کرو
روپ نگر کے ناکے پر یہ لگتا ہے محصول میاں

--ابنِ انشاء--

Sunday, February 7, 2010


ایران میں کون رہتا ہے؟ ایران میں ایرانی قوم رہتی ہے؟ انگلستان میں کون رہتا ہے؟ انگلستان میں انگریز قوم رہتی ہے؟ فرانس میں کون رہتا ہے؟ فرانس میں فرانسیسی قوم رہتی ہے؟ یہ کون سا ملک ہے؟ یہ پاکستان ہے اس میں پاکستانی قوم رہتی ہوگی؟ نہیں اس میں پاکستانی قوم نہیں رہتی ؟ اس میں سندھی قوم رہتی ہے اس میں پنجابی قوم رہتی ہے اس میں بنگالی قوم رہتی ہے اس میں یہ قوم رہتی ہے اس میں وہ قوم رہتی ہے لیکن پنجابی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں؟ سندھی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں؟ بنگالی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں؟ پھر یہ ملک الگ کیوں بنایا تھا؟ غلطی ہوگئی معاف کردیجئے، آئندہ نہیں بنائیں گے؟