Saturday, November 20, 2010

لب پر کسي کا بھي ہو، دل ميں تيرا نقشا ہے



لب پر کسي کا بھي ہو، دل ميں تيرا نقشا ہے
اے تصوير بنانے والي، جب سے تجھ کو ديکھا ہے

بے ترے کيا وحشت ہم کو، تجھ بن کيسا صبر و سکوں
تو ہي اپنا شہر ہے جاني تو ہي اپنا صحرا ہے

نيلے پربت، اودي دھرتي، چاروں کوٹ ميں تو ہي تو
تجھ سے اپنے جي خلوت، تجھ سے من کا ميلا ہے

آج تو ہم بکنے کو آئے، آج ہمارے دام لگا
يوسف تو بازار وفا ميں ايک ٹکے کو بکتا ہے

لے جاني اب اپنے من کے پيراہن کي گرہيں کھول
لے جاني اب آدھي شب ہے چار طرف سناٹا ہے

طوفانوں کي بات نہيں ہے، طوفاں آتے جاتے ہيں
تو اک نرم ہواکا جھونکا، دل کے باغ ميں ٹھہرا ہے

ياتو آج ہميں اپنالے يا تو آج ہمارا بن
ديکھ کہ وقت گزرتا جائے، کون ابد تک جيتا ہے

فردا محض فسوں کا پردا، ہم تو آج کے بندے ہيں
ہجر و وصل وفا اور دھوکا سب کچھ آج پہ رکھتا ہے

ابنِ انشا

No comments:

Post a Comment