Thursday, December 17, 2009

کیوں نام ہم ا س کے بتلائیں

Its a great fun reading Insha's poetry :). But most of them left a very sad feeling in last :(.



کیوں نام ہم ا س کے بتلائیں


تم ا س لڑکی کو دیکھتے ہو

تم ا س لڑکی کو جانتے ہو

وہ اجلی گوری ؟ نہیں نہیں

وہ مست چکوری نہیں نہیں

وہ جس کا کرتا نیلا ہے ٘؟

وہ جس کا آنچل پیلا ہے ؟

وہ جس کی آ نکھ پہ چشمہ ہے

وہ جس کے ماتھے ٹیکا ہے

ا ن سب سے الگ ا ن سب سے پرے

وہ گھاس پہ نیچے بیلوں کے

کیا گول مٹول سا چہرہ ہے

جو ہر دم ہنستا رہتا ہے

کچھ چتان ہیں البیلے سے

کچھ ا س کے نین نشیلے سے

ا س وقت مگر سوچوں میں مگن

وہ سانولی صورت کی ناگن

کیا بے خبرانہ بیٹھی ہے

یہ گیت اسی کا در پن ہے

یہ گیت ہمارا جیون ہے

ہم ا س ناگن کے گھائل تھے

ہم اس کے مسائل تھے

جب شعر ہماری سنتی تھی

خا موش دوپٹا چنتی تھی

جب وحشت ا سے سستاتی تھی

کیا ہرنی سی بن جاتی تھی

یہ جتنے بستی والے تھے

ا س چنچل کے متوالے تھے

ا س گھر میں کتنے سالوں کی

تھی بیٹھک چاہنے والوں کی

گو پیار کی گنگا بہتی تھی

وہ نار ہی ہم سے کہتی تھی

یہ لوگ تو محض سہارے ہیں

ا نشا جی ہم تو تمہارے ہیں

ا ب ا ور کسی کی چاہت کا

کرتی ہے بہانا ۔۔۔ بیٹھی ہے

ہم نے بھی کہا دل نے بھی کہا

دیکھو یہ زمانہ ٹھیک نہیں

یوں پیار بڑھانا ٹھیک نہیں

نا دل مانا ، نا ہم مانے

ا نجام تو سب دنیا والے جانے

جو ہم سے ہماری وحشت کا

سنتی ہے فسانہ بیٹھی ہے

ہم جس کے لئے پردیس پھریں

جوگی کا بدل کر بھیس پھریں

چاہت کے نرالے گیت لکھیں

جی موہنے والے گیت لکھیں

ا س شہر کے ایک گھروندے میں

ا س بستی کے اک کونے میں.

کیا بے خبرا نہ بیٹھی ہے

ا س درد کو ا ب چپ چاپ سہو

انشا جی لہو تو ا س سے کہو

جو چتون کی شکلوں میں لیے

آنکھوں میں لیے ،ہونٹوں میں لیے

خوشبو کا زمانہ بیٹھی ہے

لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں

کیوں نام ہم ا س کا بتلائیں

ہم جس کے لیے پردیس پھرے

چاہت کے نرالے گیت لکھے

جی موہنے والے گیت لکھے

جو سب کے لیے دامن میں بھرے

خوشیوں کا خزانہ بیٹھی ہے

جو خار بھی ہے ا ور خوشبو بھی

جو درد بھی ہے ا ور دار و بھی

لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں

کیوں نام ہم ا س کا بتلائیں

وہ کل بھی ملنے آئی تھی

وہ آج بھی ملنے آئی ہے

جو ا پنی نہیں پرائی ہے

ا نشا جی کیا بات بنے گی ہم لوگوں سے دور ہوئے



ا نشا جی کیا بات بنے گی ہم لوگوں سے دور ہوئے

ہم کس دل کا روگ بنے ، کس سینے کا باسور ہوئے

بستی بستی آگ لگتی تھی ، جلنے پر مجبور ہوئے

رندوں میں کچھ بات چلی تھی شیشے چکناچور ہوئے

لیکن تم کیوں بیٹھے بیٹھے آہ بھری رنجور ہوئے

ا ب تو ایک زمانہ گزرا تم سے کوئی قصور ہوئے

ا ے لوگو کیوں بھولی باتیں یاد کرو ، کیا یاد دلاؤ

قافلے والے دور گئے ، بجھنے دوا گر بجھتا ہے ا لاؤ

ایک موج سے رک سکتا ہے طوفانی دریا کا بہاؤ

سمے سمے کا اک را گ ہے ،سمے سمے کا ا پنا بھاؤ

آس کی ا جڑی پھلوا ری میں یادوں کے غنچے نہ کھلاؤ

پچھلے پہر کے ا ندھیارے میں کافوری شنعیں نہ جلاؤ

ا نشا جی وہی صبح کی لالی ۔ ا نشا جی وہی شب کا سماں

تمہی خیال کی جگر مگر بھٹک رہے ہو جہاں تہا ں

وہی چمن وہی گل بوٹے ہیں وہی بہا ریں وہی خزاں

ایک قدم کی بات ہے یوں تو رد پہلے خوابوں کا جہاں

لیکن دور ا فق دیکھو لہراتا گھنگھور دھواں

بادل بادل ا مڈ رہا ہے سہج سہج پیچاں پیچاں

منزل دور دکھے تو راہی رہ میں بیٹھ رہے سستائے

ہم بھی تیس برس کے ماندے یونہی روپ نگر ہو آئے

روپ نگر کی راج کماری سپنوں میں آئے بہلائے

قدم قدم پر مدماتی مسکان بھیرے ہاتھ نہ آئے

چند رما مہراج کی جیوتی تارے ہیں آپس میں چھپائے

ہم بھی گھوم رہے ہیں لے کر کاسہ انگ بھبھوت رمائے

جنگل جنگل گھوم رہے ہیں رمتے جوگی سیس نوائے

تم پر یوں کے راج دلارے ،تم ا ونچے تاروں کے کوی

ہم لوگوں کے پاس یہی ا جڑا انبر ، ا جڑتی دھرتی

تو تم ا ڑن کھٹولے لے کر پہنچو تاروں کی نگری

ہم لوگوں کی روح کمر تک دھرتی کی دلدل میں پھنسی

تم پھولوں کی سیجیں ڈھونڈو ا ور ندیاں سنگیت بھری

ہم پت جھڑ کی ا جڑی بیلیں ، زرد زرد ا لجھی الجھی

ہم وہ لوگ ہیں گنتے تھے تو کل تک جن کو پیاروںمیں

حال ہمارا سنتے تھے تو لوٹتے تھے ا نگاروں میں

آج بھی کتنے ناگ چھپے ہیں دشمن کے بمباروں میں

آتے ہیں نیپام ا گلتے وحشی سبزہ زاروں میں

آہ سی بھر کے رہ جاتے ہو بیٹھ کے دنیا داروں میں

حال ہمارا چھپتا ہے جب خبروں میں ا خباروں میں

ا وروں کی تو باتیں چھوڑا ، ا ور تو جانے کیا کیا تھے

رستم سے کچھ ا ور دلاور بھیم سے بڑہ کر جودھا تھے

لیکن ہم بھی تند بھپرتی موجوں کا اک دھار ا تھے

انیائے کے سوکھے جنگل کو جھلساتی جوالا تھے

نا ہم ا تنے چپ چپ تھے تب، نا ہم ا تنے تنہا تھے

ا پنی ذات میں راجا تھے ہم ا پنی ذات میں سینہ تھے

طوفانوں کا ریلا تھے ہم ، بلوانوں کی سینا تھے

کفایت شعاری ۔ ابن انشاء کی ایک تحریر کا مختصر حصہ


سب سے زرین اصول یہ ہے کہ جو کام کل ہو سکتا ہے۔اسے آج پر نہ ڈالو ۔ اور جو چیز کہیں اور مل سکتی ہےاسے سامنے کی دوکان سے نہ خریدو۔ ہم فلم دیکھنے میں بالعموم یہی اصول برتتے ہی ۔ شروع کے تین دنوں میں تو ہم رش سے گھبراتے ہیں ۔ تاکہ جن کو دیکھنا ہے دیکھ لیں۔ اور بھیڑ چھٹ جاۓ۔ پیر کے بعد ہم حساب لگاتے ہیں کہ ابھی چار روز اور ہیں۔ کسی بھی دن دیکھ لیں گے۔ دو تین دن ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں لگ جاتے ہیں کہ میٹنی شو دیکھنا مناسب ہو گا یا رات کا۔حتی کہ اخبار میں فلم اترنے کا اعلان آجاتا ہے۔ شیطان کے جن کاموں کو ہم برا جانتے ہیں ان میں تعجیل بھی ہے۔ قلم اب نہ دیکھی پھر آے گی تو دیکھ لی جاۓ گی ۔ نتیجہ یہ کہ اس وقت تمام اچھی فلمیں ہماری ویٹنگ لسٹ پر ہیں کہ دوبارہ آیں گی تو دیکھی جایں۔ کپڑوں کے بارے میں بھی یہی قیمتی اصول ہمارے پیش نظر رہتا ہے۔ پاکستان میں صنعتیں برابر ترقی کر رہی ہیں۔ ہر سال نۓ نۓ اور بہتر ڈیزاءن کے کپڑے بازار میں آتے ہیں۔ اگر ہم بالفرض گزشتہ سال سوٹ سلوا لیتے تو آج افسوس ہوتا۔ آج سلوالیں تو اگلے برس افسوس ہو گا۔ انسان ایسا کام ہی کیوں کرے جس میں بعد ازاں افسوس کا اندیشہ ہو۔
1961ء میں کنٹرول ریٹ پر ایک کار مل رہی تھی۔ پھر وہ نہ ملی کیونکہ دکاندار ہمارے اصول سے واقف نہ تھا، اس نے بیچنے میں جلدی کی۔ اگر کہیں اس وقت ہم یہ کار خرید لیتے تو اس وقت چار سال پرانی ہوتی ۔ کوئی آدھے داموں بھی نہ پوچھتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کفایت شعاری اور جزرسی جسے فضول خرچ خسست کا نام دیتے ہیں۔اﷲ کی دین ہے ۔ تاہم ایسی مثالیں بھی ہیں کہ انسان کوشش سے یہ ملکہ حاصل کر لیتا ہے۔ ان میں سب سے روشن مثال خود ہماری ہے۔ ابھی چند سال پہلے تو ہم کبھی کبھار کو‏ئی چیز خرید بیٹھتے تھے اور ظاہر ہے کہ آخر میں پچھتاتے تھے۔ آخر ایک روز اپنے دوست ممتاز مفتی سے جو ہمارے ساتھ کام کرتے تھے۔ ہم نے گزارش کی کہ ہمارے ساتھ ایک نیکی کیجۓ ۔
بولے "کہو کیا بات ہے۔ کچھ قرض چاہیۓ؟"
ہم نے کہا " جی نہیں۔ وہ تو روز چاہیۓ ہوتا ہے۔ آج یہ کہنا ہے کہ ہم بازار میں خریداری کو نکلیں بو ہمارے ہم رکاب رہا کیجۓ۔ آپ کا کام فقط ہمیں مفید مشورے دینا ہوگا۔ جہاں آپ دیکھیڑ کہ ہم کو‏‏ئی چیز خریدنے پر تلے ہوۓ ہیں۔ آہستہ سے اتنا فرما دیا کیجۓ کہ اگلی دکان پر چار آنے سستی ہے۔
بولے ٹھیک ہے۔ اب ہوا یہ کہ ہم نے ایک جگہ دو روپے موزوں کے طے کیے۔ (دکاندار تین روپے مانگ رہا تھا) اور بٹوہ نکال کر ادائگی کرنے کو تھے کہ مفتی جی نے کہا۔ "یہاں سے مت لو جی" فرئر روڈ کے فٹ پاتھ پر یہی چیز ڈیڑھ روپے کی ہے۔
یوں ہمارے وہ دو روپے بھی بچے اور وہ ڈیڑھ روپیہ بھی، کیورکہ اس روز فٹ پاتھ پر تلاش بس؛ار کے باوجود دکان دار ہمیں نہ مل سکا۔مل جاتا تو مفتی صاحب فرماتے کہ " ذرا بندر روڈ پر چلو تو یہ موزہ ایک روپے میں دلادوں۔"
چند روز میں ہم یہ بھول گۓ کہ یہ ترکیب مفتی صاحب کو خود ہم نے سمجھا ئی ہے۔ قارئین کرام بھی یہ نسخہ استعمال کو کے دیکھیں۔ فائدہ ہو تو اس فقیر کو دعاۓ خیر سے یاد فرمائیں۔