Sunday, June 21, 2009

کل چودھویں کی رات تھی




کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نہ کہا یہ چاند ہے، کچھ نہ کہا چہرا تیرا

ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم سے بھی سب پُوچھا کیے
ہم ہنس دیئے، ہم چُپ رہے، منظور تھا پردا تیرا

اس شہر میں کِس سے مِلیں، ہم سے تو چُھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ تیرا

کُوچے کو تیرے چھوڑ کے جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل تیرے، پربت تیرے، بستی تیری، صحرا تیرا

تُو باوفا، تُو مہرباں، ہم اور تجھ سے بدگماں؟
ہم نے تو پوچھا تھا ذرا، یہ وصف کیوں ٹھرا تیرا

بے شک اسی کا دوش ہے، کہتا نہیں خاموش ہے
تو آپ کر ایسی دوا، بیمار ہو اچھا تیرا

ہم اور رسمِ بندگی؟ آشفتگی؟ اُفتادگی؟
احسان ہے کیا کیا تیرا، اے حسنِ بے پروا تیرا

دو اشک جانے کِس لیے، پلکوں پہ آ کر ٹِک گئے
الطاف کی بارش تیری اکرام کا دریا تیرا

اے بے دریغ و بے اَماں، ہم نے کبھی کی ہے فغاں؟
ہم کو تِری وحشت سہی ، ہم کو سہی سودا تیرا

ہم پر یہ سختی کی نظر، ہم ہیں فقیرِ رہگُزر
رستہ کبھی روکا تیرا دامن کبھی تھاما تیرا

ہاں ہاں تیری صورت حسیں، لیکن تُو اتنا بھی نہیں
اس شخص کے اشعار سے شہر ہوا کیا کیا تیرا

بے درد، سُنتی ہو تو چل، کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق تیرا، رُسوا تیرا، شاعر تیرا، اِنشا تیرا

اِبنِ اِنشاؔ


Monday, June 15, 2009

سب مایا ہے






سب مایا ہے

سب مایا ہے سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے
اس عشق میں ہم نے جو کھویا جو پایا ہے
جو تم نے کہاہے فیض نے جو فرمایا ہے
سب مایا ہے

اک نام تو باقی رہتا ہے گر جان نہیں
جب دیکھ لیا اس سودے میں نقصان نہیں
تب شمع پہ دینے جان پتنگا آیا ہے
سب مایا ہے

معلوم ہمیں سب قیس میاں کا قصہ بھی
سب ایک سے ہیں یہ رانجھا بھی یہ انشا بھی
فرہاد بھی جو اک نہر سی کھود کے لایا ہے
سب مایا ہے

جس گوری پر ہم ایک غزل ہر شام لکھیں
تم جانتے ہوں ہم کیوں کر اس کا نام لکھیں
دل اس کی بھی چوکھٹ چوم کے آیا ہے
سب مایا ہے

وہ لڑکی بھی جو چاند نگر کی رانی تھی
وہ جس کی الہڑ آنکھوں میں حیرانی تھی
آج اس نے بھی پیغام یہی بجھوایا ہے
سب مایا ہے

جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہر جائی ہے
اس شہر سے دور اک کٹیا ہم نے بنائی ہے
اور اس کٹیا کے ماتھے پے لکھوایا ہے
سب مایا ہے