Tuesday, November 29, 2011

wo humsafar tha magar us se hum nawayi na thi

wo humsafar tha magar us se hum nawayi na thi

k dhoop chaon ka aalam raha judai na thi

Adawatein thi, Taghaful tha, Ranjishen thi, Magar

Bicharne wale main sab kuch tha magar be wafai na thi

Bicharte waqt un aankhon main thi hamari ghazal

Ghazal bhi wo jo kabhi kisi ko sunayi na thi

kisay pukaar raha tha wo doobte huey din

sada to ayi thi lakin koi duhaayi na thi

kabhi ye haal k dono main yak-dili thi Mohsin

kabhi ye marhala jaise k aashnayi na thi

Monday, February 14, 2011

دل عشق میں‌بے مایاں ، سودا ہو تو ایسا ہو



دل عشق میں‌بے مایاں ، سودا ہو تو ایسا ہو
دریا ہو تو ایسا ہو ، صحرا ہو تو ایسا ہو

ہم سے نہیں‌رشتہ بھی ، ہم سے نہیں ملتا بھی
ہے پاس وہ بیٹھا بھی ، دھوکہ ہو تو ایسا ہو

اک خال سویدا میں ، پہنائی دو عالم
پھیلا ہو تو ایسا ہو ، سمٹا ہو تو ایسا ہو

دریا بہ حباب اندر ، طوفاں بہ سحاب اندر
محشر بہ حجاب اندر ، ہونا ہو تو ایسا ہو

وہ بھی رہا بیگانہ ، ہم نے بھی نہ پہچانا
ہاں ، اے دل دیوانہ ، اپنا ہو تو ایسا ہو

ہم نے یہی مانگا تھا ، اس نے یہی بخشا ہے
بندہ ہو تو ایسا ہو، داتا ہو تو ایسا ہو

اس دور میں‌کیا کیا ہے ،رسوائی بھی ،لذّت بھی
کانٹا ہو تو ایسا ہو ، چبھتا ہو تو ایسا ہو

اے قیس جنوں پیشہ ، انشاء کو کبھی دیکھا
وحشی ہو تو ایسا ہو ،رسوا ہو تو ایسا ہو

ابن انشاء





دل عشق میں‌بے مایاں ، سودا ہو تو ایسا ہو



دل عشق میں‌بے مایاں ، سودا ہو تو ایسا ہو
دریا ہو تو ایسا ہو ، صحرا ہو تو ایسا ہو

ہم سے نہیں‌رشتہ بھی ، ہم سے نہیں ملتا بھی
ہے پاس وہ بیٹھا بھی ، دھوکہ ہو تو ایسا ہو

اک خال سویدا میں ، پہنائی دو عالم
پھیلا ہو تو ایسا ہو ، سمٹا ہو تو ایسا ہو

دریا بہ حباب اندر ، طوفاں بہ سحاب اندر
محشر بہ حجاب اندر ، ہونا ہو تو ایسا ہو

وہ بھی رہا بیگانہ ، ہم نے بھی نہ پہچانا
ہاں ، اے دل دیوانہ ، اپنا ہو تو ایسا ہو

ہم نے یہی مانگا تھا ، اس نے یہی بخشا ہے
بندہ ہو تو ایسا ہو، داتا ہو تو ایسا ہو

اس دور میں‌کیا کیا ہے ،رسوائی بھی ،لذّت بھی
کانٹا ہو تو ایسا ہو ، چبھتا ہو تو ایسا ہو

اے قیس جنوں پیشہ ، انشاء کو کبھی دیکھا
وحشی ہو تو ایسا ہو ،رسوا ہو تو ایسا ہو

ابن انشاء


Read more: http://www.qatarliving.com/node/1603230#ixzz1DvkcPRAM


Monday, January 24, 2011

ہم خوابوں کے بیوپاری تھےپر اس میں ہوا نقصان بڑا

ہم خوابوں کے بیوپاری تھےپر اس میں ہوا نقصان بڑا

کچھ بخت میں ڈھیروں کالک تھی کچھ غضب کا کال پڑا

ہم راکھ لئے ہیں جھولی میں اور سر پہ ہے ساہوکار کھڑا

جب دھرتی صحرا صحرا تھی ہم دریا دریا روئے تھے

جب ہاتھ کی ریکھائیں چُپ تھیں اور سُرسنگیت میں کھوئے تھے

تب ہم نے جیون کھیتی میں کچھ خواب انوکے بوئے تھے

کچھ خواب سجل مسکانوں کےکچھ بول بہت دیوانوں کے

کچھ نیر و وفا کی شمعوں کے کچھ پاگل پروانوں کے

کچھ لفظ جنہیں معنی نہ ملیں کچھ گیت شکستہ جانوں کے

پھر اپنی گھائل آنکھوں سے خوش ہوکے لہو چھڑکایا تھا

ماٹی میں ماس کی کھاد بھری اور نس نس کو زخمایا تھا

جب فصل کٹی تو کیا دیکھا،کچھ درد کے ٹوٹے گجرے تھے

کچھ زخمی خواب تھے کانٹوں پرکچھ خاکستر سے گجرے تھے

اور دور اُفق کے ساگر میں کچھ ڈولتے ڈولتے بجرے تھے

اب پاوں کھڑاوں دھول بھری اور تن پہ جوگ کا چولا ہے

سب سنگی ساتھی بھید بھرے کوئی ماشہ ہے کوئی تولہ ہے

اب گھاٹ ہے نہ گھر دہلیز ہے نہ در اب پاس رہا کیا ہے بابا

بس اک تن کی گٹھڑی باقی ہے جا یہ بھی تو لے جا بابا

ہم بستی کو چھوڑے جاتے ہیں تو اپنا قرض چکا بابا

Saturday, January 22, 2011

ہم رات بہت روئے، بہت آہ و فغاں کی



ہم رات بہت روئے، بہت آہ و فغاں کی
دل درد سے بوجھل ہو تو پھر نیند کہاں کی

سر زانو پہ رکھے ہوئے کیا سوچ رہی ہو؟
کچھ بات سمجھتی ہو محبت زدگاں کی؟

تم میری طرف دیکھ کے چپ ہو سی گئی تھیں
وہ ساعتِ خوش وقت نشاطِ گزراں کی

اک دن یہ سمجھتے تھے کہ پایانِ تمنا
اک رات ہے مہتاب کے ایامِ جواں کی

اب اور ہی اوقات ہے اے جانِ تمنا!
ہم نالہ کناں، بے گنَہاں، غم زدگاں کی

اس گھر کی کھلی چھت پہ چمکتے ہوئے تارو!
کہتے ہو کبھی جا کے وہاں بات یہاں کی ؟

برگشتہ ہوا ہم سے، یہ مہتاب تو پیارو!
بس بات سنی، راہ چلا، کاہکشاں کی

اللہ کرے میرؔ کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی

ہوتا ہے یہی عشق میں انجام سبھی کا
باتیں یہی دیکھی ہیں محبت زدگاں کی

پڑھتے ہیں شب و روز اسی شخص کی غزلیں
غزلیں یہ حکایات ہیں ہم دل زدگاں کی

تم چرخِ چہارم کے ستارے ہوئے لوگو!
تاراج کرو زندگیاں اہلِ جہاں کی

اچھا ہمیں بنتے ہوئے، مٹتے ہوئے دیکھو
ہم موجِ گریزاں ہی سہی، آبِ رواں کی

انشاؔ سے ملو، اس سے نہ روکیں گے وہ، لیکن
اُس سے یہ ملاقات نکالی ہے کہاں کی

مشہور ہے ہر بزم میں اس شخص کا سودا
باتیں ہیں بہت شہر میں بدنام، میاں کی

اے دوستو! اے دوستو! اے درد نصیبو!
گلیوں میں، چلو سیر کریں، شہرِ بتاں کی

ہم جائیں کسی سَمت، کسی چوک میں ٹھہریں
کہیو نہ کوئی بات کسی سود و زیاں کی

انشاؔ کی غزل سن لو، پہ رنجور نہ ہونا
دیوانا ہے، دیوانے نے اک بات بیاں کی

(ابنِ انشا)







Saturday, November 20, 2010

اک بار کہو تم میری ہو


اک بار کہو تم میری ہو
ہم گھوم چکے بستی بَن میں
اک آس کی پھانس لئے مَن میں
کوئی ساجن ہو، کوئی پیارا ہو
کوئی دیپک ہو، کوئی تارا ہو
جب جیون رات اندھیری ہو

اک بار کہو تم میری ہو

جب ساون بادل چھائے ہوں
جب پھاگن پھول کھلائے ہوں
جب چندا روپ لُٹاتا ہو
جب سورج دھوپ نہاتا ہو
یا شام نے بستی گھیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو

اک بار کہو تم میری ہو

کیا جھگڑا سود خسارے کا
یہ کاج ہیں بنجارے کا
سب سونا روپا لے جائے
سب دنیا، دنیا لے جائے
تم ایک مجھے بہتیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو

ابنِ انشاء

ہم لوگوں نے عشق ایجا کیا !



جب دہر کے غم سے اماں نہ ملی، ہم لوگوں نے عشق ایجاد کیا !
کبھی شہرِ بتاں میں خراب پھرے، کبھی دشتِ جنوں آباد کیا

کبھی بستیاں بن، کبھی کوہ و دمن،رہا کتنے دنوں یہی جی کا چلن
جہان حُسن ملا وہاں بیٹھ گئے، جہاں پیار ملا وہاں صاد کیا

شبِ ماہ میں جب بھی یہ درد اٹھا، کبھی بیت کہے ، لکھی چاندنگر
کبھی کوہ سے جاسر پھوڑ مرے، کبھے قیس کو جا استاد کیا

یہی عشق بالآخر روگ بنا، کہ ہے چاہ کے ساتھ بجگ بنا
جسے بننا تھا عیش وہ سوگ بنا، بڑا مَن کے نگر میں فساد کیا

اب قربت و صحبتِ یار کہاں، اب و عارض و زلف و کنار کہاں
اب اپنا بھی میر سا عالم ہے، ٹک دیکھ لیا جی شاد کیا

ابنِ انشاء