Monday, January 24, 2011

ہم خوابوں کے بیوپاری تھےپر اس میں ہوا نقصان بڑا

ہم خوابوں کے بیوپاری تھےپر اس میں ہوا نقصان بڑا

کچھ بخت میں ڈھیروں کالک تھی کچھ غضب کا کال پڑا

ہم راکھ لئے ہیں جھولی میں اور سر پہ ہے ساہوکار کھڑا

جب دھرتی صحرا صحرا تھی ہم دریا دریا روئے تھے

جب ہاتھ کی ریکھائیں چُپ تھیں اور سُرسنگیت میں کھوئے تھے

تب ہم نے جیون کھیتی میں کچھ خواب انوکے بوئے تھے

کچھ خواب سجل مسکانوں کےکچھ بول بہت دیوانوں کے

کچھ نیر و وفا کی شمعوں کے کچھ پاگل پروانوں کے

کچھ لفظ جنہیں معنی نہ ملیں کچھ گیت شکستہ جانوں کے

پھر اپنی گھائل آنکھوں سے خوش ہوکے لہو چھڑکایا تھا

ماٹی میں ماس کی کھاد بھری اور نس نس کو زخمایا تھا

جب فصل کٹی تو کیا دیکھا،کچھ درد کے ٹوٹے گجرے تھے

کچھ زخمی خواب تھے کانٹوں پرکچھ خاکستر سے گجرے تھے

اور دور اُفق کے ساگر میں کچھ ڈولتے ڈولتے بجرے تھے

اب پاوں کھڑاوں دھول بھری اور تن پہ جوگ کا چولا ہے

سب سنگی ساتھی بھید بھرے کوئی ماشہ ہے کوئی تولہ ہے

اب گھاٹ ہے نہ گھر دہلیز ہے نہ در اب پاس رہا کیا ہے بابا

بس اک تن کی گٹھڑی باقی ہے جا یہ بھی تو لے جا بابا

ہم بستی کو چھوڑے جاتے ہیں تو اپنا قرض چکا بابا

Saturday, January 22, 2011

ہم رات بہت روئے، بہت آہ و فغاں کی



ہم رات بہت روئے، بہت آہ و فغاں کی
دل درد سے بوجھل ہو تو پھر نیند کہاں کی

سر زانو پہ رکھے ہوئے کیا سوچ رہی ہو؟
کچھ بات سمجھتی ہو محبت زدگاں کی؟

تم میری طرف دیکھ کے چپ ہو سی گئی تھیں
وہ ساعتِ خوش وقت نشاطِ گزراں کی

اک دن یہ سمجھتے تھے کہ پایانِ تمنا
اک رات ہے مہتاب کے ایامِ جواں کی

اب اور ہی اوقات ہے اے جانِ تمنا!
ہم نالہ کناں، بے گنَہاں، غم زدگاں کی

اس گھر کی کھلی چھت پہ چمکتے ہوئے تارو!
کہتے ہو کبھی جا کے وہاں بات یہاں کی ؟

برگشتہ ہوا ہم سے، یہ مہتاب تو پیارو!
بس بات سنی، راہ چلا، کاہکشاں کی

اللہ کرے میرؔ کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی

ہوتا ہے یہی عشق میں انجام سبھی کا
باتیں یہی دیکھی ہیں محبت زدگاں کی

پڑھتے ہیں شب و روز اسی شخص کی غزلیں
غزلیں یہ حکایات ہیں ہم دل زدگاں کی

تم چرخِ چہارم کے ستارے ہوئے لوگو!
تاراج کرو زندگیاں اہلِ جہاں کی

اچھا ہمیں بنتے ہوئے، مٹتے ہوئے دیکھو
ہم موجِ گریزاں ہی سہی، آبِ رواں کی

انشاؔ سے ملو، اس سے نہ روکیں گے وہ، لیکن
اُس سے یہ ملاقات نکالی ہے کہاں کی

مشہور ہے ہر بزم میں اس شخص کا سودا
باتیں ہیں بہت شہر میں بدنام، میاں کی

اے دوستو! اے دوستو! اے درد نصیبو!
گلیوں میں، چلو سیر کریں، شہرِ بتاں کی

ہم جائیں کسی سَمت، کسی چوک میں ٹھہریں
کہیو نہ کوئی بات کسی سود و زیاں کی

انشاؔ کی غزل سن لو، پہ رنجور نہ ہونا
دیوانا ہے، دیوانے نے اک بات بیاں کی

(ابنِ انشا)