Thursday, December 17, 2009

کیوں نام ہم ا س کے بتلائیں

Its a great fun reading Insha's poetry :). But most of them left a very sad feeling in last :(.



کیوں نام ہم ا س کے بتلائیں


تم ا س لڑکی کو دیکھتے ہو

تم ا س لڑکی کو جانتے ہو

وہ اجلی گوری ؟ نہیں نہیں

وہ مست چکوری نہیں نہیں

وہ جس کا کرتا نیلا ہے ٘؟

وہ جس کا آنچل پیلا ہے ؟

وہ جس کی آ نکھ پہ چشمہ ہے

وہ جس کے ماتھے ٹیکا ہے

ا ن سب سے الگ ا ن سب سے پرے

وہ گھاس پہ نیچے بیلوں کے

کیا گول مٹول سا چہرہ ہے

جو ہر دم ہنستا رہتا ہے

کچھ چتان ہیں البیلے سے

کچھ ا س کے نین نشیلے سے

ا س وقت مگر سوچوں میں مگن

وہ سانولی صورت کی ناگن

کیا بے خبرانہ بیٹھی ہے

یہ گیت اسی کا در پن ہے

یہ گیت ہمارا جیون ہے

ہم ا س ناگن کے گھائل تھے

ہم اس کے مسائل تھے

جب شعر ہماری سنتی تھی

خا موش دوپٹا چنتی تھی

جب وحشت ا سے سستاتی تھی

کیا ہرنی سی بن جاتی تھی

یہ جتنے بستی والے تھے

ا س چنچل کے متوالے تھے

ا س گھر میں کتنے سالوں کی

تھی بیٹھک چاہنے والوں کی

گو پیار کی گنگا بہتی تھی

وہ نار ہی ہم سے کہتی تھی

یہ لوگ تو محض سہارے ہیں

ا نشا جی ہم تو تمہارے ہیں

ا ب ا ور کسی کی چاہت کا

کرتی ہے بہانا ۔۔۔ بیٹھی ہے

ہم نے بھی کہا دل نے بھی کہا

دیکھو یہ زمانہ ٹھیک نہیں

یوں پیار بڑھانا ٹھیک نہیں

نا دل مانا ، نا ہم مانے

ا نجام تو سب دنیا والے جانے

جو ہم سے ہماری وحشت کا

سنتی ہے فسانہ بیٹھی ہے

ہم جس کے لئے پردیس پھریں

جوگی کا بدل کر بھیس پھریں

چاہت کے نرالے گیت لکھیں

جی موہنے والے گیت لکھیں

ا س شہر کے ایک گھروندے میں

ا س بستی کے اک کونے میں.

کیا بے خبرا نہ بیٹھی ہے

ا س درد کو ا ب چپ چاپ سہو

انشا جی لہو تو ا س سے کہو

جو چتون کی شکلوں میں لیے

آنکھوں میں لیے ،ہونٹوں میں لیے

خوشبو کا زمانہ بیٹھی ہے

لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں

کیوں نام ہم ا س کا بتلائیں

ہم جس کے لیے پردیس پھرے

چاہت کے نرالے گیت لکھے

جی موہنے والے گیت لکھے

جو سب کے لیے دامن میں بھرے

خوشیوں کا خزانہ بیٹھی ہے

جو خار بھی ہے ا ور خوشبو بھی

جو درد بھی ہے ا ور دار و بھی

لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں

کیوں نام ہم ا س کا بتلائیں

وہ کل بھی ملنے آئی تھی

وہ آج بھی ملنے آئی ہے

جو ا پنی نہیں پرائی ہے

ا نشا جی کیا بات بنے گی ہم لوگوں سے دور ہوئے



ا نشا جی کیا بات بنے گی ہم لوگوں سے دور ہوئے

ہم کس دل کا روگ بنے ، کس سینے کا باسور ہوئے

بستی بستی آگ لگتی تھی ، جلنے پر مجبور ہوئے

رندوں میں کچھ بات چلی تھی شیشے چکناچور ہوئے

لیکن تم کیوں بیٹھے بیٹھے آہ بھری رنجور ہوئے

ا ب تو ایک زمانہ گزرا تم سے کوئی قصور ہوئے

ا ے لوگو کیوں بھولی باتیں یاد کرو ، کیا یاد دلاؤ

قافلے والے دور گئے ، بجھنے دوا گر بجھتا ہے ا لاؤ

ایک موج سے رک سکتا ہے طوفانی دریا کا بہاؤ

سمے سمے کا اک را گ ہے ،سمے سمے کا ا پنا بھاؤ

آس کی ا جڑی پھلوا ری میں یادوں کے غنچے نہ کھلاؤ

پچھلے پہر کے ا ندھیارے میں کافوری شنعیں نہ جلاؤ

ا نشا جی وہی صبح کی لالی ۔ ا نشا جی وہی شب کا سماں

تمہی خیال کی جگر مگر بھٹک رہے ہو جہاں تہا ں

وہی چمن وہی گل بوٹے ہیں وہی بہا ریں وہی خزاں

ایک قدم کی بات ہے یوں تو رد پہلے خوابوں کا جہاں

لیکن دور ا فق دیکھو لہراتا گھنگھور دھواں

بادل بادل ا مڈ رہا ہے سہج سہج پیچاں پیچاں

منزل دور دکھے تو راہی رہ میں بیٹھ رہے سستائے

ہم بھی تیس برس کے ماندے یونہی روپ نگر ہو آئے

روپ نگر کی راج کماری سپنوں میں آئے بہلائے

قدم قدم پر مدماتی مسکان بھیرے ہاتھ نہ آئے

چند رما مہراج کی جیوتی تارے ہیں آپس میں چھپائے

ہم بھی گھوم رہے ہیں لے کر کاسہ انگ بھبھوت رمائے

جنگل جنگل گھوم رہے ہیں رمتے جوگی سیس نوائے

تم پر یوں کے راج دلارے ،تم ا ونچے تاروں کے کوی

ہم لوگوں کے پاس یہی ا جڑا انبر ، ا جڑتی دھرتی

تو تم ا ڑن کھٹولے لے کر پہنچو تاروں کی نگری

ہم لوگوں کی روح کمر تک دھرتی کی دلدل میں پھنسی

تم پھولوں کی سیجیں ڈھونڈو ا ور ندیاں سنگیت بھری

ہم پت جھڑ کی ا جڑی بیلیں ، زرد زرد ا لجھی الجھی

ہم وہ لوگ ہیں گنتے تھے تو کل تک جن کو پیاروںمیں

حال ہمارا سنتے تھے تو لوٹتے تھے ا نگاروں میں

آج بھی کتنے ناگ چھپے ہیں دشمن کے بمباروں میں

آتے ہیں نیپام ا گلتے وحشی سبزہ زاروں میں

آہ سی بھر کے رہ جاتے ہو بیٹھ کے دنیا داروں میں

حال ہمارا چھپتا ہے جب خبروں میں ا خباروں میں

ا وروں کی تو باتیں چھوڑا ، ا ور تو جانے کیا کیا تھے

رستم سے کچھ ا ور دلاور بھیم سے بڑہ کر جودھا تھے

لیکن ہم بھی تند بھپرتی موجوں کا اک دھار ا تھے

انیائے کے سوکھے جنگل کو جھلساتی جوالا تھے

نا ہم ا تنے چپ چپ تھے تب، نا ہم ا تنے تنہا تھے

ا پنی ذات میں راجا تھے ہم ا پنی ذات میں سینہ تھے

طوفانوں کا ریلا تھے ہم ، بلوانوں کی سینا تھے

کفایت شعاری ۔ ابن انشاء کی ایک تحریر کا مختصر حصہ


سب سے زرین اصول یہ ہے کہ جو کام کل ہو سکتا ہے۔اسے آج پر نہ ڈالو ۔ اور جو چیز کہیں اور مل سکتی ہےاسے سامنے کی دوکان سے نہ خریدو۔ ہم فلم دیکھنے میں بالعموم یہی اصول برتتے ہی ۔ شروع کے تین دنوں میں تو ہم رش سے گھبراتے ہیں ۔ تاکہ جن کو دیکھنا ہے دیکھ لیں۔ اور بھیڑ چھٹ جاۓ۔ پیر کے بعد ہم حساب لگاتے ہیں کہ ابھی چار روز اور ہیں۔ کسی بھی دن دیکھ لیں گے۔ دو تین دن ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں لگ جاتے ہیں کہ میٹنی شو دیکھنا مناسب ہو گا یا رات کا۔حتی کہ اخبار میں فلم اترنے کا اعلان آجاتا ہے۔ شیطان کے جن کاموں کو ہم برا جانتے ہیں ان میں تعجیل بھی ہے۔ قلم اب نہ دیکھی پھر آے گی تو دیکھ لی جاۓ گی ۔ نتیجہ یہ کہ اس وقت تمام اچھی فلمیں ہماری ویٹنگ لسٹ پر ہیں کہ دوبارہ آیں گی تو دیکھی جایں۔ کپڑوں کے بارے میں بھی یہی قیمتی اصول ہمارے پیش نظر رہتا ہے۔ پاکستان میں صنعتیں برابر ترقی کر رہی ہیں۔ ہر سال نۓ نۓ اور بہتر ڈیزاءن کے کپڑے بازار میں آتے ہیں۔ اگر ہم بالفرض گزشتہ سال سوٹ سلوا لیتے تو آج افسوس ہوتا۔ آج سلوالیں تو اگلے برس افسوس ہو گا۔ انسان ایسا کام ہی کیوں کرے جس میں بعد ازاں افسوس کا اندیشہ ہو۔
1961ء میں کنٹرول ریٹ پر ایک کار مل رہی تھی۔ پھر وہ نہ ملی کیونکہ دکاندار ہمارے اصول سے واقف نہ تھا، اس نے بیچنے میں جلدی کی۔ اگر کہیں اس وقت ہم یہ کار خرید لیتے تو اس وقت چار سال پرانی ہوتی ۔ کوئی آدھے داموں بھی نہ پوچھتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کفایت شعاری اور جزرسی جسے فضول خرچ خسست کا نام دیتے ہیں۔اﷲ کی دین ہے ۔ تاہم ایسی مثالیں بھی ہیں کہ انسان کوشش سے یہ ملکہ حاصل کر لیتا ہے۔ ان میں سب سے روشن مثال خود ہماری ہے۔ ابھی چند سال پہلے تو ہم کبھی کبھار کو‏ئی چیز خرید بیٹھتے تھے اور ظاہر ہے کہ آخر میں پچھتاتے تھے۔ آخر ایک روز اپنے دوست ممتاز مفتی سے جو ہمارے ساتھ کام کرتے تھے۔ ہم نے گزارش کی کہ ہمارے ساتھ ایک نیکی کیجۓ ۔
بولے "کہو کیا بات ہے۔ کچھ قرض چاہیۓ؟"
ہم نے کہا " جی نہیں۔ وہ تو روز چاہیۓ ہوتا ہے۔ آج یہ کہنا ہے کہ ہم بازار میں خریداری کو نکلیں بو ہمارے ہم رکاب رہا کیجۓ۔ آپ کا کام فقط ہمیں مفید مشورے دینا ہوگا۔ جہاں آپ دیکھیڑ کہ ہم کو‏‏ئی چیز خریدنے پر تلے ہوۓ ہیں۔ آہستہ سے اتنا فرما دیا کیجۓ کہ اگلی دکان پر چار آنے سستی ہے۔
بولے ٹھیک ہے۔ اب ہوا یہ کہ ہم نے ایک جگہ دو روپے موزوں کے طے کیے۔ (دکاندار تین روپے مانگ رہا تھا) اور بٹوہ نکال کر ادائگی کرنے کو تھے کہ مفتی جی نے کہا۔ "یہاں سے مت لو جی" فرئر روڈ کے فٹ پاتھ پر یہی چیز ڈیڑھ روپے کی ہے۔
یوں ہمارے وہ دو روپے بھی بچے اور وہ ڈیڑھ روپیہ بھی، کیورکہ اس روز فٹ پاتھ پر تلاش بس؛ار کے باوجود دکان دار ہمیں نہ مل سکا۔مل جاتا تو مفتی صاحب فرماتے کہ " ذرا بندر روڈ پر چلو تو یہ موزہ ایک روپے میں دلادوں۔"
چند روز میں ہم یہ بھول گۓ کہ یہ ترکیب مفتی صاحب کو خود ہم نے سمجھا ئی ہے۔ قارئین کرام بھی یہ نسخہ استعمال کو کے دیکھیں۔ فائدہ ہو تو اس فقیر کو دعاۓ خیر سے یاد فرمائیں۔

Tuesday, November 17, 2009

ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا






جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا
اپنے دیس کو روتے بھی ہو
چین سے بڑھ کر سوتے بھی ہو
اپنے دیس کا غم کیسا ہے
ہنستے بھی ہو روتے بھی ہو
کس نے کہا تھا آئو یہاں
آکر تم بس جائو یہاں
وہ دیس تمہارا اپنا تھا
وہ شہر تمہارا اپنا تھا
وہ گلی تمہاری اپنی تھی
وہ مکاں پرانا اپنا تھا
اس دیس کو تم نے چھوڑ دیا
اس دیس کو پھر کیوں چھوڑا تھا
کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
ان رشتوں کو کیوں توڑا تھا
ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا؟
جب بھی ہم پردیسی مل کر بیٹھیں
قصے پھر چھڑ جاتے ہیں
ان ٹوٹی سڑکوں کے قصے
ان گندی گلیوں کے قصے
ان گندی گلیوں میں پھرنے والے
ان سارے بچوں کے قصے
اونگی یا کورنگی کے
پانی کے سب نلکوں کے قصے
ان نلکوں پر ہونے والے ان سارے جھگڑوں کے قصے
نکڑ والے دروازے پر ٹاٹ کے اس پردے کے قصے
اس پردے کے پیچھے بیٹھی اس البیلی نار کے قصے
جس کی ایک نظر کو ترسیں ان سارے لڑکوں کے قصے
جھوٹے قصے،سچے قصے
پیار بھرے اس دیس کے قصے
پیار بھرے اس دیس کو تم نے آخر کیوں کر چھوڑا تھا
کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا
ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا
تم پھولے نہیں سمائے تھے
جب ایمبیسی سے آئے تھے
ہر ایک کو ویزا دیکھاتے تھے اور ساتھ یہ کہتے تھے
چند ہی روز کی بات ہے یارو
جب میں واپس آئوں گا
ساتھ میں اپنے ڈھیر سے ڈالر اور پتہ بھی لائوں گا
تم نے کب یہ سوچا ہو گا
کیا کیا کچھ پردیس میں ہو گا
اپنے دیس کے ہوتے سوتے
بے وطنی کو روتے روتے
دیس کو تم پردیس کہو گے
اور پردیس کو دیس کہو گے
دیس کو تم الزام بھی دو گے
الٹے سیدھے نام بھی دو گے
ارے دیس کو تم الزام نہ دو
الٹے سیدھے نام نہ دو
دیس نے تم کو چھوڑا تھا یا
تم نے دیس کو چھوڑا تھا
کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا
ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا



Sunday, November 15, 2009

انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو



ابن انشاء کا کلام“انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو“ جس کے لکھنے کے ایک ماہ بعد وہ وفات پاگئے تھے۔
اس کے بعد قتیل شفائی نے غزل لکھی “یہ کس نے کہا تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشا جی“، دونوں غزلیں اپنے اعتبار سے اردو ادب ميں ایک اچھا اضافہ ہيں۔
ہاں، یہ اور بات ہے کہ قتیل صاحب کی غزل زیادہ افسردہ کر جاتی ہے۔


ابنِ انشاء





انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جی کو لگانا کيا
وحشی کو سکوں سےکيا مطلب، جوگی کا نگر ميں ٹھکانا کيا

اس دل کے دريدہ دامن کو، ديکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی ميں سو چھيد ہوئے، اس جھولی کا پھيلانا کيا

شب بيتی ، چاند بھی ڈوب چلا ، زنجير پڑی دروازے میں
کيوں دير گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانا کيا

پھر ہجر کی لمبی رات مياں، سنجوگ کی تو يہی ايک گھڑی
جو دل ميں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کيا گھبرانا کيا

اس روز جو اُن کو دیکھا ہے، اب خواب کا عالم لگتا ہے
اس روز جو ان سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی افسانہ کیا

اس حُسن کے سچے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں
جسے ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا

اس کو بھی جلا دُکھتے ہوئے مَن، اک شُعلہ لال بھبوکا بن
یوں آنسو بن بہہ جانا کیا؟ یوں ماٹی میں مل جانا کیا

جب شہر کے لوگ نہ رستہ ديں، کيوں بن ميں نہ جا بسرام کرے
ديوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے ديوانہ کيا

 


 
ابنِ انشاء کی وفات پر قتیل شفائی نے ایک غزل ‘یہ کس نے کہا تُم کُوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشا جی’ لکھی تھی۔

قتیل شفائی





یہ کس نے کہا تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشا جی
یہ شہر تمہارا اپنا ہے، اسے چھوڑ نہ جاؤ انشا جی

جتنے بھی یہاں کے باسی ہیں، سب کے سب تم سے پیار کریں
کیا اِن سے بھی منہہ پھیروگے، یہ ظلم نہ ڈھاؤ انشا جی

کیا سوچ کے تم نے سینچی تھی، یہ کیسر کیاری چاہت کی
تم جن کو ہنسانے آئے تھے، اُن کو نہ رلاؤ انشا جی

تم لاکھ سیاحت کے ہو دھنی، اِک بات ہماری بھی مانو
کوئی جا کے جہاں سے آتا نہیں، اُس دیس نہ جاؤ انشا جی

بکھراتے ہو سونا حرفوں کا، تم چاندی جیسے کاغذ پر
پھر اِن میں اپنے زخموں کا، مت زہر ملاؤ انشا جی

اِک رات تو کیا وہ حشر تلک، رکھے گی کھُلا دروازے کو
کب لوٹ کے تم گھر آؤ گے، سجنی کو بتاؤ انشا جی

نہیں صرف “قتیل“ کی بات یہاں، کہیں “ساحر“ ہے کہیں “عالی“ ہے
تم اپنے پرانے یاروں سے، دامن نہ چھڑاؤ انشا جی




[caption id="attachment_1604" align="aligncenter" width="497" caption="IBN-E-INSHA, BANO QUDSIA and ASHFAQ AHMED in Dunya Pakistan"]IBNE INSHA, BANO QUDSIA and ASHFAQ AHMED in Dunya Pakistan[/caption]

Wednesday, November 11, 2009

آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی



شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی
یا ہمی کوخبر نہیں ہوتی

ہم نے سب دکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بے کلی اس قدر نہیں ہوتی

نالہ یوں نا رسا نہیں رہتا
آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی

چاند ہے، کہکشاں ہے تارے ہیں
کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی

ایک جاں سوز و نامراد خلش
اس طرف ہے اُدھر نہیں ہوتی

دوستو، عشق ہے خطا لیکن
کیا خطا درگزر نہیں ہوتی
رات آکر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی

بے قراری سہی نہیں جاتی
زندگی مختصر نہیں ہوتی

دل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی

Saturday, October 31, 2009

ہم لوگوں نے عشق ایجا کیا

A poet, columnist, humorist, and travelogue writer loved for past five decades by Urdu language readers around the globe named Ibn-e-Insha. What’s behind in his life that made him to write articles with ‘Full of Humor’ and poetry ‘Full of sorrows’. Two totally opposite things combined in one writer. It’s Amazing. Well he is admirable writer. I just love the way he gives words in form of poetry – very smooth, fluent and can be readable in one breath even a poetry of 56 lines have the same sequence of words and syllables. I am posting some of them here.

ہم لوگوں نے عشق ایجا کیا !
جب دہر کے غم سے اماں نہ ملی، ہم لوگوں نے عشق ایجاد کیا !
کبھی شہرِ بتاں میں خراب پھرے، کبھی دشتِ جنوں آباد کیا

کبھی بستیاں بن، کبھی کوہ و دمن،رہا کتنے دنوں یہی جی کا چلن
جہان حُسن ملا وہاں بیٹھ گئے، جہاں پیار ملا وہاں صاد کیا

شبِ ماہ میں جب بھی یہ درد اٹھا، کبھی بیت کہے ، لکھی چاندنگر
کبھی کوہ سے جاسر پھوڑ مرے، کبھے قیس کو جا استاد کیا

یہی عشق بالآخر روگ بنا، کہ ہے چاہ کے ساتھ بجگ بنا
جسے بننا تھا عیش وہ سوگ بنا، بڑا مَن کے نگر میں فساد کیا

اب قربت و صحبتِ یار کہاں، اب و عارض و زلف و کنار کہاں
اب اپنا بھی میر سا عالم ہے، ٹک دیکھ لیا جی شاد کیا


- ابنِ انشاء

ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ آرام کہاں

A poet, columnist, humorist, and travelogue writer loved for past five decades by Urdu language readers around the globe named Ibn-e-Insha. What’s behind in his life that made him to write articles with ‘Full of Humor’ and poetry ‘Full of sorrows’. Two totally opposite things combined in one writer. It’s Amazing. Well he is admirable writer. I just love the way he gives words in form of poetry – very smooth, fluent and can be readable in one breath even a poetry of 56 lines have the same sequence of words and syllables. I am posting some of them here.

ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ آرام کہاں
آج یہاں کل اور نگر میں، صبح کہاں اور شام کہاں

ہم سے بھی پیت کی بات کرو کچھ، ہم سے بھی لوگو پیار کرو
تم تو پشیمان ہو بھی سکو گے، ہم کو یہاں پہ دوام کہاں

سانجھ سمے کچھ تارے نکلے، پل بھر چمکے ڈوب گئے
انبر انبر ڈھونڈ رہا ہے اب انہیں ماہِ تمام کہاں

دل پہ جو بیتے سہ لیتے ہیں، اپنی زباں میں کہ لیتے ہیں
انشاء جی ہم لگ کہاں اور میر کا رنگِ کلام کہاں

اک بات کہیں گے انشاء جی تمھیں ریختہ کہتے دیر ہوئی
تم ایک جہاں کا علم پڑھے، کوئی میر سا شعر کہا تم نے؟

- ابنِ انشاء

Wednesday, October 21, 2009

دیکھ ہماری دید کے کارن کیسا قابلِ دید ہوا

A poet, columnist, humorist, and travelogue writer loved for past five decades by Urdu language readers around the globe named Ibn-e-Insha. What’s behind in his life that made him to write articles with ‘Full of Humor’ and poetry ‘Full of sorrows’. Two totally opposite things combined in one writer. It’s Amazing. Well he is admirable writer. I just love the way he gives words in form of poetry – very smooth, fluent and can be readable in one breath even a poetry of 56 lines have the same sequence of words and syllables. I am posting some of them here.


دیکھ ہماری دید کے کارن کیسا قابلِ دید ہوا
ایک ستارا بیٹھے بیٹھے تابش میں خورشید ہوا

آج تو جانی رستہ تکتے، شام کا چاند پدید ہوا
تو نے تو انکار کیا تھا، دل کب نا امید ہوا

آن کے اس بیمار کو دیکھے، تجھ کو بھی توفیق ہوئی?
لب پر اس کے نام تھا تیرا، جب بھی درد شدید ہوا

ہاں اس نے جھلکی دکھلائی، ایک ہی پل کو دریچے میں
جانو اک بجلی لہرائی، عالم ایک شہید ہوا

تو نے ہم سے کلام بھی چھوڑا، عرضِ وفا کی سنتے ہیں
پہے کون قریب تھا ہم سے، اب تو اور بعید ہوا

دنیا کے سب کارج چھوڑے، نام پہ تیرے انشاء نے
اور اسے کیا تھوڑے غم تھے ? تیرا عشق مزید ہوا

---- ابنِ انشاء

Saturday, October 10, 2009

دين الہي


دينيات کي ہر طرف اکبر کے شغف کو ديکھتے ھوئے وزير با تدبير ابوالفضل نے اس کے ذاتي استعمال کيلئے دين الہي ايجاد کر ديا تھا، اور يہ کہنے کي ضرورت نہيں کہ اس کے پہلے خليفہ کي ذمہ دارياں خود سنبھال لي تھيں، چڑھتے سورج کي پوجا کرنا اس مذہب کا بنيادي اصول تھا، مريد اکبر کے گرد جمع ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ اے ظل الہي تو ايسا دانا و فرزانہ ہے کہ تجھ کو تاحيات سربراہ مملکت يعني بادشاہ وغيرہ رہنا چاہيئے، اس کے نام کا وظيفہ پڑھتے تھے، اور اس کي تعريف ميں وقت بے وقت بيانات جاري کرتے رہتے، پرسشتں کي ايسي رسميں آج کل بھي رائج ہيں، ليکن ان کو دين الہي نہيں کہتے۔

Friday, October 2, 2009

ایک دعا






يا اللہ
کھانے کو روٹي دے
پہننے کو کپڑا دے
رہنے کو مکان دے
عزت اور آسودگي کي زندگي دے

مياں يہ بھي کوئي مانگنے کي چيزیں ہيں؟
کچھ اور مانگا کر
بابا جي آپ کيا مانگتے ہيں؟
ميں؟
ميں يہ چيزيں نہيں مانگتا
ميں تو کہتا ہوں
اللہ مياں مجھے ايمان دے
نيک عمل کرنے کي توفيق دے

بابا جي آپ ٹھيک مانگتے ہيں
انسان وہي چيز تو مانگتا ہے
جو اس کے پاس نہيں ہوتي

Tuesday, September 22, 2009

اتفاق ميں برکت ہے


ايک بڑے مياں جنہوں نے اپني زندگي ميں بہت کچھ کمايا بنايا تھا۔ آخر بيمار ہوئے، مرض الموت ميں گرفتار ہوئے۔ ان کو اور تو کچھ نہیں، کوئي فکر تھي تو يہ کہ ان کے پانچوں بيٹوں کي آپس میں نہیں بنتي تھي۔ گاڑھي کيا پتلي بھي نہیں چھنتي تھي۔ لڑتے رہتے تھے کبھي کسي بات پر اتفاق نہ ہوتا تھا حالانکہ اتفاق ميں بڑي برکت ہے۔ آخر انہوں نے بيٹوں پر اتحاد و اتفاق کي خوبياں واضح کرنے کے لئے ايک ترکيب سوچي۔ ان کو اپنے پاس بلايا اور کہا ۔ ديکھو اب میں کوئي دم کا مہمان ہوں سب جا کر ايک ايک لکڑي لائو۔
ايک نے کہا۔ لکڑي؟ آپ لکڑيوں کا کيا کريں گے؟ دوسرے نے آہستہ سے کہا ۔بڑے مياں کا دماغ خراب ہو رہا ہے۔ لکڑي نہیں شايد ککڑي کہہ رہے ہیں، ککڑي کھانے کو جي چاہتا ہوگا۔ تيسرے نے کہا نہیں کچھ سردي ہے شايد آگ جلانے کو لکڑياں منگاتے ہوں گے ۔ چوتھے نے کہا بابو جي کوئلے لائيں؟ پانچويں نے کہا نہیں اپلے لاتا ہوں وہ زيادہ اچھے رہيں گے۔
باپ نے کراہتے ہوئے کہا ارے نالائقو میں جو کہتا ہوں وہ کرو۔ کہیں سے لکڑياں لائوں جنگل سے۔ ايک بيٹے نے کہا۔ يہ بھي اچھي رہي، جنگل يہاں کہا؟ اور محکمہ جنگلات والے لکڑي کہاں کاٹنے ديتے ہيں۔
دوسرے نے کہا آپنے آپے ميں نہیں ہيں باپو جي بک رہے ہيں جنون ميں کيا کيا کچھ۔ تيسرے نے کہا بھئي لکڑيوں والي بات اپن کي تو سمجھ میں نہیں آئي۔
چوتھے نے کہا۔ بڑے مياں نے عمر بھر ميں ايک ہي تو خواہش کي ہے اسے پورا کرنے ميں کيا ہرج ہے؟ پانچويں نے کہا اچھا میں جاتا ہوں ٹال پر سے لکڑياں لاتا ہوں چنانچہ وہ ٹال پرگيا، ٹال والے سے کہا خان صاحب ذرا پانچ لکڑياں تو دينا اچھي مضبوط ہوں۔
ٹال والے نے لکڑياں ديں۔ ہر ايک خاصي موٹي اور مضبوط ۔ باپ نے ديکھا اس کا دل بيٹھ گيا۔ يہ بتانا بھي خلاف مصلحت تھا کہ لکڑياں کيوں منگائي ہيں اور اس سے کيا اخلاقي نتيجہ نکالنا مقصود ہے۔ آخر بيٹوں سے کہا۔ اب ان لکڑيوں کا گھٹا باندھ دو۔
اب بيٹوں ميں پھر چہہ ميگوئياں ہوئيں،گٹھا، وہ کيوں؟ اب رسي کہاں سے لائیں بھئي بہت تنگ کيا اس بڈھے نے ۔ آخر ايک نے اپنے پاجامے ميں سے ازار بند نکالا اور گھٹا باندھا۔
بڑے مياں نے کہا۔ اب اس گھٹے کو توڑو۔ بيٹوں نے کہا۔ تو بھئي يہ بھي اچھي رہي۔ کيسے توڑيں ۔ کلہاڑا کہاں سے لائيں ۔
باپ نے کہا کلہاڑي سے نہیں ۔ہاتھوں سے توڑو گھٹنے سے توڑو۔
حکم والد مرگ مفاجات ۔ پہلے ايک نے کوشش کي ۔ پھر دوسرے نے پھر تيسرے نے پھر چوتھے نے پھر پانچويں نے ۔ لکڑيوں کا بال بيکا نہ ہوا۔ سب نے کہا بابو جي ہم سے نہیں ٹوٹتا يہ لکڑيوں کا گھٹا۔
باپ نے کہا اچھا اب ان لکڑيوں کو الگ الگ کر دو ، ان کي رسي کھول دو۔ ايک نے جل کر کہا رسي کہاں ہے ميرا ازار بند ہے اگر آپ کو کھلوانا تھا تو گھٹا بندھوايا ہي کيوں تھا۔ لائو بھئي کوئي پنسل دينا ازار بند ڈال لوں پاجامے میں۔ باپ نے بزرگانہ شفقت سے اس کي بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا اچھا اب ان لکڑيوں کو توڑو ايک ايک کر کے توڑو۔لکڑياں چونکہ موٹي موٹي اور مضبوط تھيں۔ بہت کوشش کي کسي سے نہ ٹوٹيں آخر میں بڑے بھائي کي باري تھي۔ اس نے ايک لکڑي پر گھٹنے کا پورا زور ڈالا اور تڑاق کي آواز آئي۔
باپ نے نصيحت کرنے کے لئے آنکھيں ايک دم کھول ديں، کيا ديکھتا ہے کہ بڑا بيٹا بے ہوش پڑا ہے۔ لکڑي سلامت پڑي ہے۔ آواز بيٹے کے گھٹنے کي ہڈي ٹوٹنے کي تھي۔
ايک لڑکے نے کہا يہ بڈھا بہت جاہل ہے۔
دوسرے نے کہا :اڑيل ، ضدی۔
تيسرے نے کہا : کھوسٹ ، سنکی ، عقل سے پيدل ، گھمڑ
چوتھے نے کہا : سارے بڈھے ايسے ہی ہوتے ہیں ، کمبخث مرثا بھی تو نہيں۔
بڈھے نے اطمنان کا سانس ليا ، کہ بيٹوں ميں کم از کم ايک بات پر تو اتفاق راءے ہوا ، اس کے بعد آنکھيں بند کيں اور سکون سے جان دے دی۔

Urdu ki Akhri kitab by Ibne-Insha

Saturday, September 19, 2009

یہ بچہ کیسا بچہ ہے

یہ بچہ کس کا بچہ ہے
یہ بچہ کالا کالا سا
یہ کالا سا مٹیالا سا
یہ بچہ بھوکا بھوکا سا
یہ بچہ سوکھا سوکھا سا
یہ بچہ کس کا بچہ ہے

یہ بچہ کیسا بچہ ہے
جو ریت پہ تنہا بیٹھا ہے
نا اس کے پیٹ میں روٹی ہے
نا اس کے تن پر کپڑا ہے
نا اس کے سر پر ٹوپی ہے
نا اس کے پیر میں جوتا ہے
نا اس کے پاس کھلونوں میں
کوئی بھالو ہے، کوئی گھوڑا ہے
نا اس کا جی بہلانے کو
کوئی لوری ہے، کوئی جھولا ہے
نا اس کی جیب میں دھیلا ہے
نا اس کے ہاتھ میں پیسا ہے
نا اس کے امی ابو ہیں
نا اس کی آپا خالہ ہے

یہ سارے جگ میں تنہا ہے
یہ بچہ کس کا بچہ ہے

یہ صحرا کیسا صحرا ہے
نہ اس صحرا میں بادل ہے
نا اس صحرا میں برکھا ہے
نا اس صحرا میں بالی ہے
نا اس صحرا میں خوشہ ہے
نا اس صحرا میں سبزہ ہے
نا اس صحرا میں سایا ہے

یہ صحرا بھوک کا صحرا ہے
یہ صحرا موت کا صحرا ہے

یہ بچہ کیسے بیٹھا ہے
یہ بچہ کب سے بیٹھا ہے
یہ بچہ کِیا کچھ پوچھتا ہے
یہ بچہ کیا کچھ کہتا ہے
یہ دنیا کیسی دنیا ہے
یہ دنیا کس کی دنیا ہے

اِس دنیا کے کچھ ٹکڑوں میں
کہیں پھول کھلے کہیں سبزہ ہے
کہیں بادل گِھر گِھر آتے ہیں
کہیں چشمہ ہے، کہیں دریا ہے
کہیں اونچے محل اٹاریاں ہیں
کہیں محفل ہے، کہیں میلا ہے
کہیں کپڑوں کے بازار سجے
یہ ریشم ہے، یہ دیبا ہے
کہیں غلے کے انبار لگے
سب گیہوں دھان مہیا ہے
کہیں دولت کے صندوق بھرے
ہاں تانبا، سونا، روپا ہے
تم جو مانگو سو حاضر ہے
تم جو مانگو سو ملتا ہے

اس بھوک کے دکھ کی دنیا میں
یہ کیسا سکھ کا سپنا ہے؟
یہ کس دھرتی کے ٹکڑے ہیں؟
یہ کس دنیا کا حصہ ہے؟

ہم جس آدم کے بیٹے ہیں
یہ اس آدم کا بیٹا ہے
یہ آدم ایک ہی آدم ہے
وہ گورا ہے یا کالا ہے
یہ دھرتی ایک ہی دھرتی ہے
یہ دنیا ایک ہی دنیا ہے
سب اِک داتا کے بندے ہیں
سب بندوں کا اِک داتا ہے
کچھ پورب پچھم فرق نہیں
اِس دھرتی پر حق سب کا ہے

یہ تنہا بچہ بیچارہ
یہ بچہ جو یہاں بیٹھا ہے

اِس بچے کی کہیں بھوک مِٹے
(کیا مشکل ہے، ہو سکتا ہے)
اِس بچے کو کہیں دُودھ ملے
(ہاں دُودھ یہاں بہتیرا ہے)
اِس بچے کا کوئی تن ڈھانکے
(کیا کپڑوں کا یہاں توڑا ہے؟)
اِس بچے کو کوئی گود میں لے
(انسان جو اب تک زندہ ہے)

پھر دیکھیے کیسا بچہ ہے
یہ کِتنا پیارا بچہ ہے!

اِس جگ میں سب کچھ رب کا ہے
جو رب کا ہے، وہ سب کا ہے
سب اپنے ہیں کوئی غیر نہیں
ہر چیز سب کا ساجھا ہے
جو بڑھتا ہے، جو اُگتا ہے
وہ دانا ہے، یا میوہ ہے
جو کپڑا ہے، جو کمبل ہے
جو چاندی ہے ، جو سونا ہے
وہ سارا ہے اِس بچے کا
جو تیرا ہے، جو میرا ہے

یہ بچہ کس کا بچہ ہے؟
یہ بچہ سب کا بچہ ہے!

(ابنِ انشا، 15 ستمبر 1974)

Saturday, August 22, 2009

چل انشاء اپنے گاؤں میں


چل انشاء اپنے گاؤں میں

یہاں اُلجھے اُلجھے رُوپ بہت
پر اصلی کم، بہرُوپ بہت
اس پیڑ کے نیچے کیا رُکنا
جہاں سایہ کم ہو، دُھوپ بہت
چل انشاء اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں

کیوں تیری آنکھ سوالی ہے؟
یہاں ہر اِک بات نرالی ہے
اِس دیس بسیرا مت کرنا
یہاں مُفلس ہونا گالی ہے
چل انشاء اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں

جہاں سچے رشتے یاریوں کے
جہاں گُھونگھٹ زیور ناریوں کے
جہاں جھرنے کومل سُکھ والے
جہاں ساز بجیں بِن تاروں کے
چل انشاء اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں

ابنِ انشاء

Saturday, August 15, 2009

یہ باتیں جُھوٹی باتیں ہیں




یہ باتیں جُھوٹی باتیں ہیں

یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم اِنشا جی کا نام نہ لو، کیا انشا جی سودائی ہیں ؟

ہیں لاکھوں روگ زمانے میں، کیوں عشق ہے رُسوا بیچارا
ہیں اور بھی وجہیں وحشت کی، انسان کو رکھتیں دکھیارا
ہاں بے کل بے کل رہتا ہے، ہو پِیت میں جس نے جی ہارا
پر شام سے لے کر صبح تلک، یوں کون پھرے گا آوارہ؟
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو، کیا انشا جی سودائی ہیں ؟

یہ بات عجیب سناتے ہو، وہ دُنیا سے بے آس ہوئے
اک نام سُنا اور غش کھایا، اک ذکر پہ آپ اُداس ہوئے
وہ علم میں افلاطون سُنے، وہ شعر میں تلسی داس ہوئے
وہ تیس برس کے ہوتے ہیں، وہ بی اے، ایم اے پاس ہوئے
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم اِنشا جی کا نام نہ لو، کیا اِنشا جی سودائی ہیں ؟

گر عشق کیا ہے تب کیا ہے، کیوں شاد نہیں، آباد نہیں
جو جان لیے بنِ ٹل نہ سکے، یہ ایسی افتاد نہیں
یہ بات تو تم بھی مانو گے، وہ قیس نہیں، فرہاد نہیں
کیا ہجر کا دارُو مشکل ہے ؟ کیا وصل کے نسخے یاد نہیں؟
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں ، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو، کیا انشا جی سودائی ہیں

وہ لڑکی اچھی لڑکی ہے، تم نام نہ لو، ہم جان گئے
وہ جس کے لانبے گیسو ہیں، پہچان گئے، پہچان گئے
ہاں ساتھ ہمارے انشا بھی اُس گھر میں تھے مہمان گئے
پر اُس سے تو کچھ بات نہ کی، انجان رہے، انجان گئے
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو، کیا انشا جی سودائی ہیں؟

جو ہم سے کہو، ہم کرتے ہیں، کیا انشا کو سمجھانا ہے؟
اس لڑکی سے بھی کہہ لیں گے، گو اب کچھ اور زمانا ہے
یا چھوڑیں یا تکمیل کریں، یہ عشق ہے یا افسانا ہے؟
یہ کیسا گورکھ دھندا ہے، یہ کیسا تانا بانا ہے؟
یہ باتیں کیسی باتیں ہیں، جو لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو، کیا انشا جی سودائی ہیں؟

(ابنِ انشا)


Thursday, July 23, 2009

ہمارا تمھارا خدا بادشاہ





کسي ملک ميں ايک بادشاہ تھا، بڑا دانش مند، مہربان اور انصاف پسند، اسکے زمانے ميں ملک نے بہت ترقي کي اور رعايا اس کو بہت پسند کرتي تھي، اس بات کي شہادت نہ صرف اس زمانے کے محکمہ اطلاعات کے کتابچوں اور پريس نوٹو ں سے ملتي ہے بلکہ بادشاہ کي خود نشت سوانح عمري سے بھي۔
شاہ جمجاہ کے زمانے ميں ہر طرف آزادي کا دور دورہ تھا، لوگ آزاد تھے، اور اخبار آزاد تھے، جو چاہيں کہيں جو چاہيں لکھيں، بشرطيہ کو بادشاہ کي تعريف ميں ہو، خلاف نہ ہو۔
اس بادشاہ کے زمانہ ترقي اور فتوحات کيلئے مشہور ہے، ہر طرف خوش حالي ہي خوش حالي نظر آتي تھي، کہيں تل دھرنے کو جگہ باقي نہ تھي، جو لوگ لکھ پتي تھے، ديکھتے ديکھتے کروڑ پتي ہوگئے،حسن انتظام ايسا تھا، کہ امير لوگ سونا اچھالتے اچھالتے ملک کے اس سرے سے اس سرے تک بلکہ بعض اوقات بيرون ملک بھي چلے جاتے تھے، کسي کي مجال نہ تھي کہ پوچھے اتنا سونا کہاں سے آيا اور کہاں لئے جارہے ہو۔
روحانيت سے شغف تھا، کئي دوريش اسے ہوائي اڈے پر لينے چھوڑنے جاتے يا اس کي کامراني کيلئے چلے کاٹتے تھے، طبعيت ميں عفو اور درگزر کا مادہ از حد تھا، اگر کوئي شکايات کرتا تھا، کہ فلاں شخص نے ميري فلاں جائداد ہتھيالي ہے، يا فلاں کارخانے پر قبضہ کرليا ہے، رو مجرم خواہ بادشاہ کا کتنا ہي قريبي عزيز کيوں نہ ہو، وہ کمال سير چشمي سے اسے معاف کرديتے تھے، بلکہ شکايت کرنے والوں پر خفا ھوتے تھے، عيب جوئي بري بات ہے۔
جب بادشاہ کا دل حکومت سے بھر گيا تو وہ اپني چيک چکيں لے کر تاريک دنيا ھوگيا اور پہاڑوں کي طرف نکل گيا، لوگ کہتے ہيں اب زندہ ہے ۔
وللہ اعلم بالصواب

Wednesday, July 15, 2009

خاندان غلاماں








اس خاندان کا بانی مبانی ایک شخص غلام محمد نامی تھا اسی لئے یہ خاندان غلاماں کہلایا دوسری وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس خاندان کے عہد میں بعض طاقتوں کے نام خط غلامی لکھا گیا چونکہ اس خاندان کے بہت سے والیان سلطنت کی عمر انگریز کی غلامی میں گزری تھی اس لئے بھی اس کو خاندان غلاماںکا نام دیا گیا ۔
اس زمانے میں ذاتی اور انفرادی غلامی تو ختم ہو رہی تھی ہاں کسی ملک کا کسی دوسرے ملک کا غلام ہونا معیوب نہ سمجھا جاتا ہے آقا ملک اپنے غلام ملک کو ایڈ دیتا تھا اپنی فالتو پیداوار بھیجتا تھا تا کہ سمندروں میں نہ ڈبونی پڑے اور فالتو آدمی جن کا اس کے اپنے ملک میں کوئی مصرف نہ ہوتا تھا مشیر بنا کر ساتھ کر دیتا غلام ملک کی ذمہ داریاں کچھ زیادہ نہ ہوتی تھی بس حق نا حق میں آقا ملک کا ساتھ دینا ہوتا تھا علاوہ ازیں غلام ملک اپنے ہاں فولاد کا کارخانہ بھی نہ لگاتا تھا خارجہ پالیسی بھی پوچھ کر بناتا تھا بلکہ آقا ملک سے بنی بنائی منگاتا تھا

Sunday, June 21, 2009

کل چودھویں کی رات تھی




کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نہ کہا یہ چاند ہے، کچھ نہ کہا چہرا تیرا

ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم سے بھی سب پُوچھا کیے
ہم ہنس دیئے، ہم چُپ رہے، منظور تھا پردا تیرا

اس شہر میں کِس سے مِلیں، ہم سے تو چُھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ تیرا

کُوچے کو تیرے چھوڑ کے جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل تیرے، پربت تیرے، بستی تیری، صحرا تیرا

تُو باوفا، تُو مہرباں، ہم اور تجھ سے بدگماں؟
ہم نے تو پوچھا تھا ذرا، یہ وصف کیوں ٹھرا تیرا

بے شک اسی کا دوش ہے، کہتا نہیں خاموش ہے
تو آپ کر ایسی دوا، بیمار ہو اچھا تیرا

ہم اور رسمِ بندگی؟ آشفتگی؟ اُفتادگی؟
احسان ہے کیا کیا تیرا، اے حسنِ بے پروا تیرا

دو اشک جانے کِس لیے، پلکوں پہ آ کر ٹِک گئے
الطاف کی بارش تیری اکرام کا دریا تیرا

اے بے دریغ و بے اَماں، ہم نے کبھی کی ہے فغاں؟
ہم کو تِری وحشت سہی ، ہم کو سہی سودا تیرا

ہم پر یہ سختی کی نظر، ہم ہیں فقیرِ رہگُزر
رستہ کبھی روکا تیرا دامن کبھی تھاما تیرا

ہاں ہاں تیری صورت حسیں، لیکن تُو اتنا بھی نہیں
اس شخص کے اشعار سے شہر ہوا کیا کیا تیرا

بے درد، سُنتی ہو تو چل، کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق تیرا، رُسوا تیرا، شاعر تیرا، اِنشا تیرا

اِبنِ اِنشاؔ


Monday, June 15, 2009

سب مایا ہے






سب مایا ہے

سب مایا ہے سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے
اس عشق میں ہم نے جو کھویا جو پایا ہے
جو تم نے کہاہے فیض نے جو فرمایا ہے
سب مایا ہے

اک نام تو باقی رہتا ہے گر جان نہیں
جب دیکھ لیا اس سودے میں نقصان نہیں
تب شمع پہ دینے جان پتنگا آیا ہے
سب مایا ہے

معلوم ہمیں سب قیس میاں کا قصہ بھی
سب ایک سے ہیں یہ رانجھا بھی یہ انشا بھی
فرہاد بھی جو اک نہر سی کھود کے لایا ہے
سب مایا ہے

جس گوری پر ہم ایک غزل ہر شام لکھیں
تم جانتے ہوں ہم کیوں کر اس کا نام لکھیں
دل اس کی بھی چوکھٹ چوم کے آیا ہے
سب مایا ہے

وہ لڑکی بھی جو چاند نگر کی رانی تھی
وہ جس کی الہڑ آنکھوں میں حیرانی تھی
آج اس نے بھی پیغام یہی بجھوایا ہے
سب مایا ہے

جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہر جائی ہے
اس شہر سے دور اک کٹیا ہم نے بنائی ہے
اور اس کٹیا کے ماتھے پے لکھوایا ہے
سب مایا ہے

Wednesday, April 15, 2009

برکات حکومت غیرانگلشیہ






عزيزو بہت دن پہلے اس ملک ميں انگريزوں کي حکومت ہوتي تھي اور درسي کتابوں ميں ايک مضمون برکات حکومت انگليشہ کے عنوان سے شامل رہتا تھا، اب ہم آزاد ہيں، اس زمانے کے مصنف حکومت کي تعريف کيا کرتے تھے، کيونکہ کے اس کے سوا کوئي چارہ بھي نہيں تھا، ہم اپنے عہد کي آزادي اور قومي حکومتوں کي تعريف کريں گے، اس کي وجہ بھي ظاہر ہے۔
عزيزو انگريزوں نے کچھ اچھے کام بھي کئے ہيں، ليکن ان کے زمانے ميں خرابياں بہت تھيں، کوئي حکومت کے خلاف بولتا تھا يا لکھتا تھا تو اس کو جيل بھيج ديتے تھے، اب نہيں بھيجتے، رشوت ستاني عام تھي، آج کل نہيں ہے، دکاندار چيزيں مہنگي بيچتے اور ملاوٹ بھي کرتے تھے، آج کل کوئي مہنگي نہيں بيچتا، ملاوٹ بھي نہيں کرتا، انگريزوں کے زمانے ميں امير اور جاگيردار عيش کرتے تھے، غيربوں کو کوئي پوچھتا ہے کہ وہ تنگ آجاتے ہيں، خصوصا حق رائے دہندگي بالغاں کے بعد سے ۔
تعليم اورصنعت و حرفت کو ليجئے، ربع صدي کے مختصر عرصے ميں ہماري شرح خواندگي اٹھارافي صد ہوگئي، غير ملکي حکومت کے زمانے ميں ايسا ہوسکتا تھا؟
انگريز شروع شروع ميں ہمارے دستکاروں کے انگوٹھے کاٹ ديتے تھے، اب کارخانوں کے مالک ہمارے اپنےلوگ ہيں، دستکاروں کے انگھوٹے نہيں کاٹتے ہاں کبھي کبھي پورے دستکار کو کاٹ ديتے ہيں، آزادي سے پہلےہندو بنئيے اور سرمايہ دار ہميں لوٹا کرتے تھے، ہماري خواہش تھي، کہ يہ سلسلہ ختم ہو اور ہميں مسلمان بنئے اور سيٹھ لوٹيں،الحمد اللہ کہ يہ آرزو پوري ہوئي، جب سے حکومت ہمارے ہاتھ ميں آئي ہے ہم نے خاص برآمدات دو ہيں، دفود اور زرمبادلہ، درآمدات ہم گھٹاتے جارہے ہيں، ايک زمانہ ميں تو خارجہ پاليس تک باہر سے درآمد کرتے تھے ، اب يہاں بننے لگي ہے۔



Sunday, March 15, 2009

آٹو گراف - ابن انشا




Ibn-e-Insha


نام شیر محمد خان، طبع سیلانی، لغت رومانی، شعر میں آہنگ میر سے روانی اور نثر میں شعورِ عصر سے جولانی۔ یہ تھے ہمارے ابن انشا۔ آئے، ٹھہرے اور ایک ہی چوٹ میں نظم و نثر کا میدان سر کیا۔ شعر میں بجوگ کا جو رس تھا اسے ہی نثر میں بذلہ سنجی کا پردہ دیا تھا۔ زمانہ شوق سے سنتا تھا مگر چاند نگر کا دیوانہ صحرا کی طرف نکل گیا۔

Ibne Insha Signature