Saturday, September 19, 2009

یہ بچہ کیسا بچہ ہے

یہ بچہ کس کا بچہ ہے
یہ بچہ کالا کالا سا
یہ کالا سا مٹیالا سا
یہ بچہ بھوکا بھوکا سا
یہ بچہ سوکھا سوکھا سا
یہ بچہ کس کا بچہ ہے

یہ بچہ کیسا بچہ ہے
جو ریت پہ تنہا بیٹھا ہے
نا اس کے پیٹ میں روٹی ہے
نا اس کے تن پر کپڑا ہے
نا اس کے سر پر ٹوپی ہے
نا اس کے پیر میں جوتا ہے
نا اس کے پاس کھلونوں میں
کوئی بھالو ہے، کوئی گھوڑا ہے
نا اس کا جی بہلانے کو
کوئی لوری ہے، کوئی جھولا ہے
نا اس کی جیب میں دھیلا ہے
نا اس کے ہاتھ میں پیسا ہے
نا اس کے امی ابو ہیں
نا اس کی آپا خالہ ہے

یہ سارے جگ میں تنہا ہے
یہ بچہ کس کا بچہ ہے

یہ صحرا کیسا صحرا ہے
نہ اس صحرا میں بادل ہے
نا اس صحرا میں برکھا ہے
نا اس صحرا میں بالی ہے
نا اس صحرا میں خوشہ ہے
نا اس صحرا میں سبزہ ہے
نا اس صحرا میں سایا ہے

یہ صحرا بھوک کا صحرا ہے
یہ صحرا موت کا صحرا ہے

یہ بچہ کیسے بیٹھا ہے
یہ بچہ کب سے بیٹھا ہے
یہ بچہ کِیا کچھ پوچھتا ہے
یہ بچہ کیا کچھ کہتا ہے
یہ دنیا کیسی دنیا ہے
یہ دنیا کس کی دنیا ہے

اِس دنیا کے کچھ ٹکڑوں میں
کہیں پھول کھلے کہیں سبزہ ہے
کہیں بادل گِھر گِھر آتے ہیں
کہیں چشمہ ہے، کہیں دریا ہے
کہیں اونچے محل اٹاریاں ہیں
کہیں محفل ہے، کہیں میلا ہے
کہیں کپڑوں کے بازار سجے
یہ ریشم ہے، یہ دیبا ہے
کہیں غلے کے انبار لگے
سب گیہوں دھان مہیا ہے
کہیں دولت کے صندوق بھرے
ہاں تانبا، سونا، روپا ہے
تم جو مانگو سو حاضر ہے
تم جو مانگو سو ملتا ہے

اس بھوک کے دکھ کی دنیا میں
یہ کیسا سکھ کا سپنا ہے؟
یہ کس دھرتی کے ٹکڑے ہیں؟
یہ کس دنیا کا حصہ ہے؟

ہم جس آدم کے بیٹے ہیں
یہ اس آدم کا بیٹا ہے
یہ آدم ایک ہی آدم ہے
وہ گورا ہے یا کالا ہے
یہ دھرتی ایک ہی دھرتی ہے
یہ دنیا ایک ہی دنیا ہے
سب اِک داتا کے بندے ہیں
سب بندوں کا اِک داتا ہے
کچھ پورب پچھم فرق نہیں
اِس دھرتی پر حق سب کا ہے

یہ تنہا بچہ بیچارہ
یہ بچہ جو یہاں بیٹھا ہے

اِس بچے کی کہیں بھوک مِٹے
(کیا مشکل ہے، ہو سکتا ہے)
اِس بچے کو کہیں دُودھ ملے
(ہاں دُودھ یہاں بہتیرا ہے)
اِس بچے کا کوئی تن ڈھانکے
(کیا کپڑوں کا یہاں توڑا ہے؟)
اِس بچے کو کوئی گود میں لے
(انسان جو اب تک زندہ ہے)

پھر دیکھیے کیسا بچہ ہے
یہ کِتنا پیارا بچہ ہے!

اِس جگ میں سب کچھ رب کا ہے
جو رب کا ہے، وہ سب کا ہے
سب اپنے ہیں کوئی غیر نہیں
ہر چیز سب کا ساجھا ہے
جو بڑھتا ہے، جو اُگتا ہے
وہ دانا ہے، یا میوہ ہے
جو کپڑا ہے، جو کمبل ہے
جو چاندی ہے ، جو سونا ہے
وہ سارا ہے اِس بچے کا
جو تیرا ہے، جو میرا ہے

یہ بچہ کس کا بچہ ہے؟
یہ بچہ سب کا بچہ ہے!

(ابنِ انشا، 15 ستمبر 1974)

No comments:

Post a Comment