Tuesday, September 22, 2009

اتفاق ميں برکت ہے


ايک بڑے مياں جنہوں نے اپني زندگي ميں بہت کچھ کمايا بنايا تھا۔ آخر بيمار ہوئے، مرض الموت ميں گرفتار ہوئے۔ ان کو اور تو کچھ نہیں، کوئي فکر تھي تو يہ کہ ان کے پانچوں بيٹوں کي آپس میں نہیں بنتي تھي۔ گاڑھي کيا پتلي بھي نہیں چھنتي تھي۔ لڑتے رہتے تھے کبھي کسي بات پر اتفاق نہ ہوتا تھا حالانکہ اتفاق ميں بڑي برکت ہے۔ آخر انہوں نے بيٹوں پر اتحاد و اتفاق کي خوبياں واضح کرنے کے لئے ايک ترکيب سوچي۔ ان کو اپنے پاس بلايا اور کہا ۔ ديکھو اب میں کوئي دم کا مہمان ہوں سب جا کر ايک ايک لکڑي لائو۔
ايک نے کہا۔ لکڑي؟ آپ لکڑيوں کا کيا کريں گے؟ دوسرے نے آہستہ سے کہا ۔بڑے مياں کا دماغ خراب ہو رہا ہے۔ لکڑي نہیں شايد ککڑي کہہ رہے ہیں، ککڑي کھانے کو جي چاہتا ہوگا۔ تيسرے نے کہا نہیں کچھ سردي ہے شايد آگ جلانے کو لکڑياں منگاتے ہوں گے ۔ چوتھے نے کہا بابو جي کوئلے لائيں؟ پانچويں نے کہا نہیں اپلے لاتا ہوں وہ زيادہ اچھے رہيں گے۔
باپ نے کراہتے ہوئے کہا ارے نالائقو میں جو کہتا ہوں وہ کرو۔ کہیں سے لکڑياں لائوں جنگل سے۔ ايک بيٹے نے کہا۔ يہ بھي اچھي رہي، جنگل يہاں کہا؟ اور محکمہ جنگلات والے لکڑي کہاں کاٹنے ديتے ہيں۔
دوسرے نے کہا آپنے آپے ميں نہیں ہيں باپو جي بک رہے ہيں جنون ميں کيا کيا کچھ۔ تيسرے نے کہا بھئي لکڑيوں والي بات اپن کي تو سمجھ میں نہیں آئي۔
چوتھے نے کہا۔ بڑے مياں نے عمر بھر ميں ايک ہي تو خواہش کي ہے اسے پورا کرنے ميں کيا ہرج ہے؟ پانچويں نے کہا اچھا میں جاتا ہوں ٹال پر سے لکڑياں لاتا ہوں چنانچہ وہ ٹال پرگيا، ٹال والے سے کہا خان صاحب ذرا پانچ لکڑياں تو دينا اچھي مضبوط ہوں۔
ٹال والے نے لکڑياں ديں۔ ہر ايک خاصي موٹي اور مضبوط ۔ باپ نے ديکھا اس کا دل بيٹھ گيا۔ يہ بتانا بھي خلاف مصلحت تھا کہ لکڑياں کيوں منگائي ہيں اور اس سے کيا اخلاقي نتيجہ نکالنا مقصود ہے۔ آخر بيٹوں سے کہا۔ اب ان لکڑيوں کا گھٹا باندھ دو۔
اب بيٹوں ميں پھر چہہ ميگوئياں ہوئيں،گٹھا، وہ کيوں؟ اب رسي کہاں سے لائیں بھئي بہت تنگ کيا اس بڈھے نے ۔ آخر ايک نے اپنے پاجامے ميں سے ازار بند نکالا اور گھٹا باندھا۔
بڑے مياں نے کہا۔ اب اس گھٹے کو توڑو۔ بيٹوں نے کہا۔ تو بھئي يہ بھي اچھي رہي۔ کيسے توڑيں ۔ کلہاڑا کہاں سے لائيں ۔
باپ نے کہا کلہاڑي سے نہیں ۔ہاتھوں سے توڑو گھٹنے سے توڑو۔
حکم والد مرگ مفاجات ۔ پہلے ايک نے کوشش کي ۔ پھر دوسرے نے پھر تيسرے نے پھر چوتھے نے پھر پانچويں نے ۔ لکڑيوں کا بال بيکا نہ ہوا۔ سب نے کہا بابو جي ہم سے نہیں ٹوٹتا يہ لکڑيوں کا گھٹا۔
باپ نے کہا اچھا اب ان لکڑيوں کو الگ الگ کر دو ، ان کي رسي کھول دو۔ ايک نے جل کر کہا رسي کہاں ہے ميرا ازار بند ہے اگر آپ کو کھلوانا تھا تو گھٹا بندھوايا ہي کيوں تھا۔ لائو بھئي کوئي پنسل دينا ازار بند ڈال لوں پاجامے میں۔ باپ نے بزرگانہ شفقت سے اس کي بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا اچھا اب ان لکڑيوں کو توڑو ايک ايک کر کے توڑو۔لکڑياں چونکہ موٹي موٹي اور مضبوط تھيں۔ بہت کوشش کي کسي سے نہ ٹوٹيں آخر میں بڑے بھائي کي باري تھي۔ اس نے ايک لکڑي پر گھٹنے کا پورا زور ڈالا اور تڑاق کي آواز آئي۔
باپ نے نصيحت کرنے کے لئے آنکھيں ايک دم کھول ديں، کيا ديکھتا ہے کہ بڑا بيٹا بے ہوش پڑا ہے۔ لکڑي سلامت پڑي ہے۔ آواز بيٹے کے گھٹنے کي ہڈي ٹوٹنے کي تھي۔
ايک لڑکے نے کہا يہ بڈھا بہت جاہل ہے۔
دوسرے نے کہا :اڑيل ، ضدی۔
تيسرے نے کہا : کھوسٹ ، سنکی ، عقل سے پيدل ، گھمڑ
چوتھے نے کہا : سارے بڈھے ايسے ہی ہوتے ہیں ، کمبخث مرثا بھی تو نہيں۔
بڈھے نے اطمنان کا سانس ليا ، کہ بيٹوں ميں کم از کم ايک بات پر تو اتفاق راءے ہوا ، اس کے بعد آنکھيں بند کيں اور سکون سے جان دے دی۔

Urdu ki Akhri kitab by Ibne-Insha

Saturday, September 19, 2009

یہ بچہ کیسا بچہ ہے

یہ بچہ کس کا بچہ ہے
یہ بچہ کالا کالا سا
یہ کالا سا مٹیالا سا
یہ بچہ بھوکا بھوکا سا
یہ بچہ سوکھا سوکھا سا
یہ بچہ کس کا بچہ ہے

یہ بچہ کیسا بچہ ہے
جو ریت پہ تنہا بیٹھا ہے
نا اس کے پیٹ میں روٹی ہے
نا اس کے تن پر کپڑا ہے
نا اس کے سر پر ٹوپی ہے
نا اس کے پیر میں جوتا ہے
نا اس کے پاس کھلونوں میں
کوئی بھالو ہے، کوئی گھوڑا ہے
نا اس کا جی بہلانے کو
کوئی لوری ہے، کوئی جھولا ہے
نا اس کی جیب میں دھیلا ہے
نا اس کے ہاتھ میں پیسا ہے
نا اس کے امی ابو ہیں
نا اس کی آپا خالہ ہے

یہ سارے جگ میں تنہا ہے
یہ بچہ کس کا بچہ ہے

یہ صحرا کیسا صحرا ہے
نہ اس صحرا میں بادل ہے
نا اس صحرا میں برکھا ہے
نا اس صحرا میں بالی ہے
نا اس صحرا میں خوشہ ہے
نا اس صحرا میں سبزہ ہے
نا اس صحرا میں سایا ہے

یہ صحرا بھوک کا صحرا ہے
یہ صحرا موت کا صحرا ہے

یہ بچہ کیسے بیٹھا ہے
یہ بچہ کب سے بیٹھا ہے
یہ بچہ کِیا کچھ پوچھتا ہے
یہ بچہ کیا کچھ کہتا ہے
یہ دنیا کیسی دنیا ہے
یہ دنیا کس کی دنیا ہے

اِس دنیا کے کچھ ٹکڑوں میں
کہیں پھول کھلے کہیں سبزہ ہے
کہیں بادل گِھر گِھر آتے ہیں
کہیں چشمہ ہے، کہیں دریا ہے
کہیں اونچے محل اٹاریاں ہیں
کہیں محفل ہے، کہیں میلا ہے
کہیں کپڑوں کے بازار سجے
یہ ریشم ہے، یہ دیبا ہے
کہیں غلے کے انبار لگے
سب گیہوں دھان مہیا ہے
کہیں دولت کے صندوق بھرے
ہاں تانبا، سونا، روپا ہے
تم جو مانگو سو حاضر ہے
تم جو مانگو سو ملتا ہے

اس بھوک کے دکھ کی دنیا میں
یہ کیسا سکھ کا سپنا ہے؟
یہ کس دھرتی کے ٹکڑے ہیں؟
یہ کس دنیا کا حصہ ہے؟

ہم جس آدم کے بیٹے ہیں
یہ اس آدم کا بیٹا ہے
یہ آدم ایک ہی آدم ہے
وہ گورا ہے یا کالا ہے
یہ دھرتی ایک ہی دھرتی ہے
یہ دنیا ایک ہی دنیا ہے
سب اِک داتا کے بندے ہیں
سب بندوں کا اِک داتا ہے
کچھ پورب پچھم فرق نہیں
اِس دھرتی پر حق سب کا ہے

یہ تنہا بچہ بیچارہ
یہ بچہ جو یہاں بیٹھا ہے

اِس بچے کی کہیں بھوک مِٹے
(کیا مشکل ہے، ہو سکتا ہے)
اِس بچے کو کہیں دُودھ ملے
(ہاں دُودھ یہاں بہتیرا ہے)
اِس بچے کا کوئی تن ڈھانکے
(کیا کپڑوں کا یہاں توڑا ہے؟)
اِس بچے کو کوئی گود میں لے
(انسان جو اب تک زندہ ہے)

پھر دیکھیے کیسا بچہ ہے
یہ کِتنا پیارا بچہ ہے!

اِس جگ میں سب کچھ رب کا ہے
جو رب کا ہے، وہ سب کا ہے
سب اپنے ہیں کوئی غیر نہیں
ہر چیز سب کا ساجھا ہے
جو بڑھتا ہے، جو اُگتا ہے
وہ دانا ہے، یا میوہ ہے
جو کپڑا ہے، جو کمبل ہے
جو چاندی ہے ، جو سونا ہے
وہ سارا ہے اِس بچے کا
جو تیرا ہے، جو میرا ہے

یہ بچہ کس کا بچہ ہے؟
یہ بچہ سب کا بچہ ہے!

(ابنِ انشا، 15 ستمبر 1974)