Wednesday, November 10, 2010

فرض کرو ہم اہلِ وفا ہوں



فرض کرو ہم اہلِ وفا ہوں ، فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو یہ دونوں باتیں جُهوٹی ہوں افسانے ہوں

فرض کرو یہ جی کی بِپتا ، جی سے جوڑ سنائی ہو
فرض کرو ابهی اور ہو اتنی، آدهی ہم نے چهپائی ہو

فرض کرو تمہیں خوش کرنے کے ڈهونڈے ہم نے بہانے ہوں
فرض کرو یہ نین تمہارے سچ مچ کے مئے خانے ہوں

فرض کرو یہ روگ ہو جُهوٹا، جُهوٹی پِیت ہماری ہو
فرض کرو اس پِیت کے روگ میں سانس بهی ہم پر بهاری ہو

فرض کرو یہ جوگ بجوگ کا ہم نے ڈهونگ رچایا ہو
فرض کرو بس یہی حقیقت باقی سب کچھ مایا ہو

دیکھ میری جاں، کہہ گئے باہو، کون دلوں کی جانے ہُو
بستی بستی صحرا صحرا، لاکهوں کریں دوانے ہو

جوگی بهی جو نگر نگر میں مارے مارے پهرتے ہیں
کاسہ لئے بهبوت رمائے سب کے دوارے پهرتے ہیں

شاعر بهی جو میٹهی بانی بول کے من کو ہرتے ہیں
بنجارے جو اونچے داموں جی کے سودے کرتے ہیں

ان میں سچے موتی بهی ہیں، ان میں کنکر پتهر بهی
ان میں اتهلے پانی بهی ہیں، ان میں گہرے ساگر بهی

گوری دیکھ کے آگے بڑهنا، سب کا جهوٹا سچا ، ہو
ڈوبنے والی ڈوب گئی وہ گهڑا تها جس کا کچہ، ہو

ابنِ انشاء


I don't know why. But This is the only thing that I don't like in all the things that I have read from the Urdu literature and poetry added by Ibn-e-Insha.

No comments:

Post a Comment