Friday, November 12, 2010

ا ب عمر کی نقدی ختم ہوئی – ابن انشاء



ا ب عمر کی نقدی ختم ہوئی
ا ب ہم کو ا دھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساہو کار بنے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے
کچھ سال ،مہینے، دن لوگو
پر سود بیاج کے بن لوگو
ہاں ا پنی جا ں کے خزانے سے
ہا ں عمر کے توشہ خانے سے
کیا کوئی بھی ساہو کار نہیں
کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں
جب نام ا دھر کا آیا
کیوںسب نے سر کو جھکایا ہے
کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں
جنہیں جاننے والے جانے ہیں
کچھ پیار ولار کے دھندے ہیں
کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں

ہم مانگتے نہیں ہزا ر برس
دس پانچ برس دو چار برس
ہاں ،سود بیا ج بھی دے لیں گے
ہا ں ا ور خرا ج بھی دے لیں گے
آسان بنے، دشوار بنے
پر کوئی تو دیون ہار بنے
تم کون ہو تمہارا نام ہے کیا
کچھ ہم سے تم کو کام ہے کیا
کیوں ا س مجمع میں آئی ہو
کچھ مانگتی ہو ؟ کچھ لاتی ہو
یہ کاروبار کی باتیں ہیں
یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں
ہم بیٹھے ہیں کشکول لیے
سب عمر کی نقدی ختم کیے
گر شعر کے رشتے آئی ہو
تب سمجھو جلد جدائی ہو
اب گیت گیا سنگیت گیا
ہا ں شعر کا موسم بیت گیا
اب پت جھڑ آئی پات گریں
کچھ صبح گریں، کچھ را ت گریں
یہ ا پنے یار پرانے ہیں
اک عمر سے ہم کو جانے ہیں
ان سب کے پاس ہے مال بہت
ہا ں عمر کے ماہ و سال بہت
ان سب کو ہم نے بلایا ہے
ا ور جھولی کو پھیلایا ہے
تم جاؤ ا ن سے بات کریں
ہم تم سے نا ملاقات کریں

کیا پانچ برس ؟کیا عمر ا پنی کے پانچ برس ؟
تم جا ن کی تھیلی لائی ہو ؟
کیا پاگل ہو ؟ سو دائی ہو ؟
جب عمر کا آ خر آتا ہے
ہر دن صدیاں بن جاتا ہے
جینے کی ہوس ہی زالی ہے
ہے کون جو ا س سے خالی ہے
کیا موت سے پہلے مرنا
تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے
پھر تم ہو ہماری کون بھلا
ہا ں تم سے ہمارا رشتہ کیا ہے
کیا سود بیاج کا لالچ ہے ؟
کسی ا ور خرا ج کا لالچ ہے ؟
تم سوہنی ہو ، من موہنی ہو ؛
تم جا کر پوری عمر جیو
یہ پانچ برس، یہ چار برس
چھن جائیں تو لگیں ہزار برس

سب دوست گئے سب یار گئے
تھے جتنے ساہو کار ، گئے
بس ایک یہ ناری بیٹھی ہے
یہ کون ہے ؟ کیا ہے ؟ کیسی ہے ؟
ہا ں عمر ہمیں درکار بھی ہے ؟
ہا ں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے
جب مانگیں جیون کی گھڑیاں
گستاخ اکھیاں کت جا لڑیاں
ہم قرض تمہیں لوٹا دیں گے
کچھ ا ور بھی گھڑیاں لا دیں گے
جو ساعت و ماہ و سال نہیں
وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
لو ا پنے جی میں ا تار لیا
لو ہم نے تم کو ادھار لیا


No comments:

Post a Comment