کبھی ان کے ملن کی اک جوت جگا دی تھی من میں
اب من کا اجالا سنو لایا، پھر شام ہے من کے آنگن میں
جو گھلتا ہے آنسو ڈھلتے ہیں ہر نیر میں دیپ سے جلتے ہیں
اب بِرھا سے دل کی آگ بُجھے یہ تو اور بھی بھڑکے ساون
چلو انشاء کے پاس چلیں، سنیں گیت منوہر پریم بھرے
جنھیں سن لیں تو من کو مسوس مریں سبھی گوپیاں گوکل کے بِن
یہ چھیل چھبیلا کو پھرے اس متھرا کی نگری میں سیکھو
سبھی باتیں کہ اپنے شیام میں تھیں اب دیکھ لو اس من موہن
کبھی میر فقیر کی بتیوں سے، کبھی غزلوں سے انشا صاحب کی
ان برھا کی بےکل راتوں میں ہم جوت جگاتے ہیں من میں
ابنِ انشاء
No comments:
Post a Comment