ا نشا جی کیا بات بنے گی ہم لوگوں سے دور ہوئے
ہم کس دل کا روگ بنے ، کس سینے کا باسور ہوئے
بستی بستی آگ لگتی تھی ، جلنے پر مجبور ہوئے
رندوں میں کچھ بات چلی تھی شیشے چکناچور ہوئے
لیکن تم کیوں بیٹھے بیٹھے آہ بھری رنجور ہوئے
ا ب تو ایک زمانہ گزرا تم سے کوئی قصور ہوئے
ا ے لوگو کیوں بھولی باتیں یاد کرو ، کیا یاد دلاؤ
قافلے والے دور گئے ، بجھنے دوا گر بجھتا ہے ا لاؤ
ایک موج سے رک سکتا ہے طوفانی دریا کا بہاؤ
سمے سمے کا اک را گ ہے ،سمے سمے کا ا پنا بھاؤ
آس کی ا جڑی پھلوا ری میں یادوں کے غنچے نہ کھلاؤ
پچھلے پہر کے ا ندھیارے میں کافوری شنعیں نہ جلاؤ
ا نشا جی وہی صبح کی لالی ۔ ا نشا جی وہی شب کا سماں
تمہی خیال کی جگر مگر بھٹک رہے ہو جہاں تہا ں
وہی چمن وہی گل بوٹے ہیں وہی بہا ریں وہی خزاں
ایک قدم کی بات ہے یوں تو رد پہلے خوابوں کا جہاں
لیکن دور ا فق دیکھو لہراتا گھنگھور دھواں
بادل بادل ا مڈ رہا ہے سہج سہج پیچاں پیچاں
منزل دور دکھے تو راہی رہ میں بیٹھ رہے سستائے
ہم بھی تیس برس کے ماندے یونہی روپ نگر ہو آئے
روپ نگر کی راج کماری سپنوں میں آئے بہلائے
قدم قدم پر مدماتی مسکان بھیرے ہاتھ نہ آئے
چند رما مہراج کی جیوتی تارے ہیں آپس میں چھپائے
ہم بھی گھوم رہے ہیں لے کر کاسہ انگ بھبھوت رمائے
جنگل جنگل گھوم رہے ہیں رمتے جوگی سیس نوائے
تم پر یوں کے راج دلارے ،تم ا ونچے تاروں کے کوی
ہم لوگوں کے پاس یہی ا جڑا انبر ، ا جڑتی دھرتی
تو تم ا ڑن کھٹولے لے کر پہنچو تاروں کی نگری
ہم لوگوں کی روح کمر تک دھرتی کی دلدل میں پھنسی
تم پھولوں کی سیجیں ڈھونڈو ا ور ندیاں سنگیت بھری
ہم پت جھڑ کی ا جڑی بیلیں ، زرد زرد ا لجھی الجھی
ہم وہ لوگ ہیں گنتے تھے تو کل تک جن کو پیاروںمیں
حال ہمارا سنتے تھے تو لوٹتے تھے ا نگاروں میں
آج بھی کتنے ناگ چھپے ہیں دشمن کے بمباروں میں
آتے ہیں نیپام ا گلتے وحشی سبزہ زاروں میں
آہ سی بھر کے رہ جاتے ہو بیٹھ کے دنیا داروں میں
حال ہمارا چھپتا ہے جب خبروں میں ا خباروں میں
ا وروں کی تو باتیں چھوڑا ، ا ور تو جانے کیا کیا تھے
رستم سے کچھ ا ور دلاور بھیم سے بڑہ کر جودھا تھے
لیکن ہم بھی تند بھپرتی موجوں کا اک دھار ا تھے
انیائے کے سوکھے جنگل کو جھلساتی جوالا تھے
نا ہم ا تنے چپ چپ تھے تب، نا ہم ا تنے تنہا تھے
ا پنی ذات میں راجا تھے ہم ا پنی ذات میں سینہ تھے
طوفانوں کا ریلا تھے ہم ، بلوانوں کی سینا تھے
No comments:
Post a Comment