Tuesday, November 17, 2009

ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا






جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا
اپنے دیس کو روتے بھی ہو
چین سے بڑھ کر سوتے بھی ہو
اپنے دیس کا غم کیسا ہے
ہنستے بھی ہو روتے بھی ہو
کس نے کہا تھا آئو یہاں
آکر تم بس جائو یہاں
وہ دیس تمہارا اپنا تھا
وہ شہر تمہارا اپنا تھا
وہ گلی تمہاری اپنی تھی
وہ مکاں پرانا اپنا تھا
اس دیس کو تم نے چھوڑ دیا
اس دیس کو پھر کیوں چھوڑا تھا
کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
ان رشتوں کو کیوں توڑا تھا
ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا؟
جب بھی ہم پردیسی مل کر بیٹھیں
قصے پھر چھڑ جاتے ہیں
ان ٹوٹی سڑکوں کے قصے
ان گندی گلیوں کے قصے
ان گندی گلیوں میں پھرنے والے
ان سارے بچوں کے قصے
اونگی یا کورنگی کے
پانی کے سب نلکوں کے قصے
ان نلکوں پر ہونے والے ان سارے جھگڑوں کے قصے
نکڑ والے دروازے پر ٹاٹ کے اس پردے کے قصے
اس پردے کے پیچھے بیٹھی اس البیلی نار کے قصے
جس کی ایک نظر کو ترسیں ان سارے لڑکوں کے قصے
جھوٹے قصے،سچے قصے
پیار بھرے اس دیس کے قصے
پیار بھرے اس دیس کو تم نے آخر کیوں کر چھوڑا تھا
کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا
ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا
تم پھولے نہیں سمائے تھے
جب ایمبیسی سے آئے تھے
ہر ایک کو ویزا دیکھاتے تھے اور ساتھ یہ کہتے تھے
چند ہی روز کی بات ہے یارو
جب میں واپس آئوں گا
ساتھ میں اپنے ڈھیر سے ڈالر اور پتہ بھی لائوں گا
تم نے کب یہ سوچا ہو گا
کیا کیا کچھ پردیس میں ہو گا
اپنے دیس کے ہوتے سوتے
بے وطنی کو روتے روتے
دیس کو تم پردیس کہو گے
اور پردیس کو دیس کہو گے
دیس کو تم الزام بھی دو گے
الٹے سیدھے نام بھی دو گے
ارے دیس کو تم الزام نہ دو
الٹے سیدھے نام نہ دو
دیس نے تم کو چھوڑا تھا یا
تم نے دیس کو چھوڑا تھا
کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا
ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا



No comments:

Post a Comment