جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا
اپنے دیس کو روتے بھی ہو
چین سے بڑھ کر سوتے بھی ہو
اپنے دیس کا غم کیسا ہے
ہنستے بھی ہو روتے بھی ہو
کس نے کہا تھا آئو یہاں
آکر تم بس جائو یہاں
وہ دیس تمہارا اپنا تھا
وہ شہر تمہارا اپنا تھا
وہ گلی تمہاری اپنی تھی
وہ مکاں پرانا اپنا تھا
اس دیس کو تم نے چھوڑ دیا
اس دیس کو پھر کیوں چھوڑا تھا
کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
ان رشتوں کو کیوں توڑا تھا
ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا؟
جب بھی ہم پردیسی مل کر بیٹھیں
قصے پھر چھڑ جاتے ہیں
ان ٹوٹی سڑکوں کے قصے
ان گندی گلیوں کے قصے
ان گندی گلیوں میں پھرنے والے
ان سارے بچوں کے قصے
اونگی یا کورنگی کے
پانی کے سب نلکوں کے قصے
ان نلکوں پر ہونے والے ان سارے جھگڑوں کے قصے
نکڑ والے دروازے پر ٹاٹ کے اس پردے کے قصے
اس پردے کے پیچھے بیٹھی اس البیلی نار کے قصے
جس کی ایک نظر کو ترسیں ان سارے لڑکوں کے قصے
جھوٹے قصے،سچے قصے
پیار بھرے اس دیس کے قصے
پیار بھرے اس دیس کو تم نے آخر کیوں کر چھوڑا تھا
کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا
ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا
تم پھولے نہیں سمائے تھے
جب ایمبیسی سے آئے تھے
ہر ایک کو ویزا دیکھاتے تھے اور ساتھ یہ کہتے تھے
چند ہی روز کی بات ہے یارو
جب میں واپس آئوں گا
ساتھ میں اپنے ڈھیر سے ڈالر اور پتہ بھی لائوں گا
تم نے کب یہ سوچا ہو گا
کیا کیا کچھ پردیس میں ہو گا
اپنے دیس کے ہوتے سوتے
بے وطنی کو روتے روتے
دیس کو تم پردیس کہو گے
اور پردیس کو دیس کہو گے
دیس کو تم الزام بھی دو گے
الٹے سیدھے نام بھی دو گے
ارے دیس کو تم الزام نہ دو
الٹے سیدھے نام نہ دو
دیس نے تم کو چھوڑا تھا یا
تم نے دیس کو چھوڑا تھا
کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا
ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا
No comments:
Post a Comment