Thursday, July 23, 2009

ہمارا تمھارا خدا بادشاہ





کسي ملک ميں ايک بادشاہ تھا، بڑا دانش مند، مہربان اور انصاف پسند، اسکے زمانے ميں ملک نے بہت ترقي کي اور رعايا اس کو بہت پسند کرتي تھي، اس بات کي شہادت نہ صرف اس زمانے کے محکمہ اطلاعات کے کتابچوں اور پريس نوٹو ں سے ملتي ہے بلکہ بادشاہ کي خود نشت سوانح عمري سے بھي۔
شاہ جمجاہ کے زمانے ميں ہر طرف آزادي کا دور دورہ تھا، لوگ آزاد تھے، اور اخبار آزاد تھے، جو چاہيں کہيں جو چاہيں لکھيں، بشرطيہ کو بادشاہ کي تعريف ميں ہو، خلاف نہ ہو۔
اس بادشاہ کے زمانہ ترقي اور فتوحات کيلئے مشہور ہے، ہر طرف خوش حالي ہي خوش حالي نظر آتي تھي، کہيں تل دھرنے کو جگہ باقي نہ تھي، جو لوگ لکھ پتي تھے، ديکھتے ديکھتے کروڑ پتي ہوگئے،حسن انتظام ايسا تھا، کہ امير لوگ سونا اچھالتے اچھالتے ملک کے اس سرے سے اس سرے تک بلکہ بعض اوقات بيرون ملک بھي چلے جاتے تھے، کسي کي مجال نہ تھي کہ پوچھے اتنا سونا کہاں سے آيا اور کہاں لئے جارہے ہو۔
روحانيت سے شغف تھا، کئي دوريش اسے ہوائي اڈے پر لينے چھوڑنے جاتے يا اس کي کامراني کيلئے چلے کاٹتے تھے، طبعيت ميں عفو اور درگزر کا مادہ از حد تھا، اگر کوئي شکايات کرتا تھا، کہ فلاں شخص نے ميري فلاں جائداد ہتھيالي ہے، يا فلاں کارخانے پر قبضہ کرليا ہے، رو مجرم خواہ بادشاہ کا کتنا ہي قريبي عزيز کيوں نہ ہو، وہ کمال سير چشمي سے اسے معاف کرديتے تھے، بلکہ شکايت کرنے والوں پر خفا ھوتے تھے، عيب جوئي بري بات ہے۔
جب بادشاہ کا دل حکومت سے بھر گيا تو وہ اپني چيک چکيں لے کر تاريک دنيا ھوگيا اور پہاڑوں کي طرف نکل گيا، لوگ کہتے ہيں اب زندہ ہے ۔
وللہ اعلم بالصواب

Wednesday, July 15, 2009

خاندان غلاماں








اس خاندان کا بانی مبانی ایک شخص غلام محمد نامی تھا اسی لئے یہ خاندان غلاماں کہلایا دوسری وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس خاندان کے عہد میں بعض طاقتوں کے نام خط غلامی لکھا گیا چونکہ اس خاندان کے بہت سے والیان سلطنت کی عمر انگریز کی غلامی میں گزری تھی اس لئے بھی اس کو خاندان غلاماںکا نام دیا گیا ۔
اس زمانے میں ذاتی اور انفرادی غلامی تو ختم ہو رہی تھی ہاں کسی ملک کا کسی دوسرے ملک کا غلام ہونا معیوب نہ سمجھا جاتا ہے آقا ملک اپنے غلام ملک کو ایڈ دیتا تھا اپنی فالتو پیداوار بھیجتا تھا تا کہ سمندروں میں نہ ڈبونی پڑے اور فالتو آدمی جن کا اس کے اپنے ملک میں کوئی مصرف نہ ہوتا تھا مشیر بنا کر ساتھ کر دیتا غلام ملک کی ذمہ داریاں کچھ زیادہ نہ ہوتی تھی بس حق نا حق میں آقا ملک کا ساتھ دینا ہوتا تھا علاوہ ازیں غلام ملک اپنے ہاں فولاد کا کارخانہ بھی نہ لگاتا تھا خارجہ پالیسی بھی پوچھ کر بناتا تھا بلکہ آقا ملک سے بنی بنائی منگاتا تھا