سب مایا ہے
سب مایا ہے سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے
اس عشق میں ہم نے جو کھویا جو پایا ہے
جو تم نے کہاہے فیض نے جو فرمایا ہے
سب مایا ہے
اک نام تو باقی رہتا ہے گر جان نہیں
جب دیکھ لیا اس سودے میں نقصان نہیں
تب شمع پہ دینے جان پتنگا آیا ہے
سب مایا ہے
معلوم ہمیں سب قیس میاں کا قصہ بھی
سب ایک سے ہیں یہ رانجھا بھی یہ انشا بھی
فرہاد بھی جو اک نہر سی کھود کے لایا ہے
سب مایا ہے
جس گوری پر ہم ایک غزل ہر شام لکھیں
تم جانتے ہوں ہم کیوں کر اس کا نام لکھیں
دل اس کی بھی چوکھٹ چوم کے آیا ہے
سب مایا ہے
وہ لڑکی بھی جو چاند نگر کی رانی تھی
وہ جس کی الہڑ آنکھوں میں حیرانی تھی
آج اس نے بھی پیغام یہی بجھوایا ہے
سب مایا ہے
جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہر جائی ہے
اس شہر سے دور اک کٹیا ہم نے بنائی ہے
اور اس کٹیا کے ماتھے پے لکھوایا ہے
سب مایا ہے
No comments:
Post a Comment